Koala Se Corona Tak
کوالا سے کرونا تک
جب جب انسانی زندگی کسی مسئلے، مصیبت یا آفت کا شکار ہوئی، انسان نے اس سے نپٹنے کے لیے جدید سے جدید تر لائحہ عمل تیار کیا۔ بقاۓ انسانی کی اس جنگ میں جیت ہمیشہ مثبت قدمی کی ہوئی ہے۔ ایک اچھا فیصلہ، مناسب وقت اور سچی لگن کے ساتھ جب بھی کیا گیا۔ مقصد میں کامیابی مقدر ٹہری لیکن کچھ ایسی قدرتی آفات طوفان، سیلاب، زلزلے اور بیماریاں وغیرہ ہیں جن سے نبٹنا انسان کے لیے تقریباََ ناممکن ہے۔ کوشش کرکے کچھ حد تک قابو تو پایا جا سکتا ہے۔ لیکن ان قدرتی آفات کے نتیجے میں بہت بڑی تعداد میں انسانی زندگیاں لپیٹ میں آ جاتی ہیں۔
2019 کے اختتام سے کچھ قبل ایسی ہی قدرتی آفت کا سامنا آسٹریلیا کو کرنا پڑا۔ آسٹریلیا کے جنگلات میں لگی بد ترین آگ کی لپیٹ میں 5 کروڑ جانور جھلس گئے۔ 50 لاکھ ایکڑ جنگلات سے قیمتی درخت اور جڑی بوٹیاں کا صفایا ہو گیا۔ کوالا سپی شیز خاندان سے تعلق رکھنے والا نازک مزاج جانور ہے جس کی نسل ہی اس آگ میں جھونک دی گئی ہے۔ آئیے پہلے ہم اس کے بارے میں مزید جانتے ہیں۔
کوالا نامی یہ جانور سبزی خور کیسہ دار marsupial ہیں۔ جو کہ غیر سماجی رویہ رکھتے ہیں۔ ان کی عمر زیادہ سے زیادہ چودہ پندرہ برس ہوتی ہے۔ اور یہ دن کا زیادہ تر حصہ سو کر گزارتے ہیں۔ اور صرف چار گھنٹے جاگتے ہیں۔ ان کی خوراک سفیدے کے درخت/ یوکلپٹس کے پتے ہیں۔ وہ یہ پتے کھا کر گزارا کرتے ہیں۔ ان کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ یہ آپس میں سماجی روابط نا ہونے کے برابر رکھتے ہیں۔ جس کی وجہ ان کا زیادہ سونا ہے۔
ان کے بچے کافی ناتواں پیدا ہوتے ہیں اور پیدا ہونے کے بعد ماں کی تھیلی میں چلے جاتے ہیں۔ اور جب بڑے ہو جاتے ہیں تو مکمل طور پہ الگ الگ رہنا شروع ہوجاتے ہیں۔ ان کے نر اپنی جگہ کی ملکیت اپنی چھاتی سے خارج ہونے والی خوشبو سے کرتے ہیں۔ اور مادہ کو اپنی طرف بلانے کے لئے چیخیں مارتے ہیں۔ جبکہ دشمن کا سامنا ہونے پر بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔
آسٹریلیا میں لگی آگ کے نتیجے میں اس سپی شی کا تیس فیصد مر چُکا ہے جو کہ ناقابل تلافی ہے۔ ان کا سب بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ یہ چڑیا گھر میں نہیں رہ سکتے جس کی وجہ سے ان کو ناپید ہونے سے بچانے کے لئے جنگل میں ہی حفاظتی انتظام کئے گئے ہیں۔ ان کوالا کی بہت سی ایموشنل ویڈیو جن میں پانی کی بھیک مانگتے دیکھے جاسکتے ہیں یوٹیوب پہ موجود ہیں۔
جیسے ہی آگ بجھتی ہے دنیا کے دوسرے خطے میں اچانک سے ایک اور قدرتی آفت ہم پر آ نازل ہوتی ہے۔ اب اس کی لپیٹ میں جانور اور پرندے نہیں بلکہ انسان ہیں۔ چین کے شہر دوہان سے اس کرونا وائرس کا آغاز ہوتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے کئی ممالک اس وائرس سے متاثر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اب ہمیں کرونا کے بارے میں بھی معلومات ہونی چاہیے۔
یہ وائرس وائرسز کی ایک فیملی کرونا وائرس سے تعلق رکھتا ہے۔ اس بیماری کی علامات خاصی جانی پہچانی ہیں جیسا کہ خشک کھانسی، بخار اور سانس لینے میں مشکلات کا سامنا کرنا بہت سے لوگوں میں یہ علامات معتدل ہوتی ہیں اور ایسے لوگوں کو ہسپتال جانے کی ضرورت نہیں پڑتی صرف کچھ لوگ شدید وائرل نمونیا کا شکار ہوتے ہیں ایسے لوگ ہاسپٹلز میں جاتے ہیں اور اموات بھی انہی لوگوں میں رپورٹ کی گئی ہیں۔ شروع میں یہ خیال ظاہر کیا جا رہا تھا کہ یہ وائرس صرف جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوتا ہے جیسا کہ سارے کورونا وائرس کرتے ہیں لیکن اب ہم یہ جانتے یہ کہ وائرس ایک شخص سے دوسرے شخص میں بھی منتقل ہوتا ہے۔ فی الحال ہمارے پاس اس وائرس کا کوئی علاج نہیں یہ ایک نیا وائرس ہے اینٹی بائیوٹکس اس پر کام نہیں کریں گی وہ صرف بیکٹیریا پر کام کرتی ہیں تو اس سے نمٹنے کے لئے ہمیں اینٹی وائرل طریقوں کی ضرورت ہے۔ ہم نے فلو وائرس کے خلاف کچھ ڈرگز بنائی ہوئی ہیں لیکن وہ بھی اس پہ کام نہیں کریں گی کیونکہ فلو وائرس کورونا وائرس سے خاصا مختلف ہے۔
کوالا سے کرونا تک کے سفر میں کیا کبھی ہم نے سوچا ہے کہ جانوروں اور انسانوں کی اتنے بڑے پیمانے پر ہلاکت کس بات کی طرف نشاندہی ہے۔ قدرت ہمیں کیا بتانے یا دیکھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ ہم نے ان دونوں آفات سے کیا سیکھا اور ہمارے اندر کیا تبدیلياں آئیں ہیں۔ ہمارے کھیتوں پر ٹڈی دل کا حملہ ہو، کوئی وبا پھوٹ پڑے، کروڑوں جانور، پرندے حشرات آگ میں جھونک دئیے جائیں یا پھر دنیا کے ممالک کرونا کے خلاف بقا کی جنگ لڑ رہے ہوں۔ ہماری غفلت میں ڈوبی قوم کے لیے اہم ٹک ٹاک ویڈیوز اور جانو مانو کا مختلف سوشل میڈیا سائٹس پر کھیل ہے۔ ہمارے مولوی حضرات کے لیے دعاسے اہم دوا ہے جسے کھانے کے بعد بچہ بازی بہتر انداز میں کی جا سکے۔ مولانا حضرات ڈنڈہ بردار خواتین کو ڈھال بناۓ حکومت کو بلیک میل کرنے کو نکلے ہیں۔ حکومت حوروں والے ٹیکے لگاۓ خواب کی امید پر سو رہی ہے۔ اپوزیشن لندن میں جیمز بانڈ بنی بیٹھی ہے۔ باقی یہاں کا زنانہ حکومت گرانے کی دھمکی یوں دیتا ہے جیسے ساحل پر ریت سے بنا گھروندہ گرانا ہو۔ بزرگ نئی نسل کے خوف سے زبان سی چکے ہیں۔ ایسی نفسانفسی میں جب کوئی خبر نگاہ سے گزرتی ہے تو پل سے زیادہ اثر ہیں کرتی۔ ہم اوہ کرکے پھر سے دنیا کے کھیل تماشوں میں مشغول ہو جاتے ہیں۔
یہ بھی شاید انسانی فطرت کا ایک تقاضا ہے کہ جب تک اس کے اپنے کلیجے کو ہاتھ نہ پڑے دوسروں کا غم نہیں سمجھ سکتا۔ کروڑوں جانور مرے دنیا میں سرسری ماتم منایا گیا بلکہ کچھ روز بعد آسٹریلیا ہی میں اونٹوں کی قربانی دے کر جانوروں کی روحوں کو مزید تڑپایا گیا پھر اب انسانوں پر بات آئی ہے قدرت نے کہا دیکھو تم بھی بے بس ہو۔ میرے ایک اشارے کے منتظر۔۔۔۔ اب ہم نے نسلوں کو فوقیت دینی شروع کر دی۔ ہم حلال کھاتے ہیں ہم پر یہ بیماری کیونکر اثر کرے گی۔ اے بندہ خدا مان کس بات پر ہے۔۔۔۔ عبرت پکڑ اور معافی مانگ۔۔۔ اپنے گناہ سامنے رکھ۔ جن کا دل دکھایا ہے ان کو منالے۔۔۔ یہ سمجھ میری اوقات تنکے کے برابر بھی نہیں۔ ہمارا یہی غرور ہمیں لے ڈوبے گا۔ ہم "میں" میں مبتلا ہیں جس دن "ہم" ہو کر سوچیں گے، ہمارے مسائل حل ہونا شروع ہو جائیں گے۔
اب بھی ضرور سوچیے گا کہ کرولا سے کرونا تک جو کھویا وہ پا تو نہیں سکتے لیکن خود کو بدل کر مزید آفات کی راہ میں سیسہ پلائی دیوار ضرور بن سکتے ہیں۔