Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Komal Shahzadi
  4. Universities Mein Dioscorus, Khamoshi Ki Saltanat Ya Sawal Ki Zameen?

Universities Mein Dioscorus, Khamoshi Ki Saltanat Ya Sawal Ki Zameen?

یونیورسٹیوں میں ڈسکورس، خاموشی کی سلطنت یا سوال کی زمین؟

یونیورسٹی صرف عمارتوں کا نام نہیں، بلکہ یہ وہ میدان ہے جہاں ذہن تراشے جاتے ہیں، سوال پیدا ہوتے ہیں اور نظریات جنم لیتے ہیں۔ یہاں صرف کتابیں نہیں کھلتیں، ذہن بھی کھلتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے جامعات واقعی سوچنے، بولنے اور بدلنے کے مراکز ہیں؟ یا وہ محض "تابعدار" ذہنوں کو پیدا کرنے کی فیکٹری بن چکی ہیں؟

اس سوال کا جواب ہمیں یونیورسٹی کے ڈسکورس کو سمجھنے سے ملے گا۔

"ڈسکورس" صرف گفتگو نہیں، بلکہ ایک فکری سانچہ ہے جو طے کرتا ہے کہ کیا کہا جائے گا؟ کسے کہنے کی اجازت ہے؟ کون خاموش رہے گا؟ کس کی بات علم کہلائے گی اور کس کی فتنہ؟

یہ محض الفاظ کا کھیل نہیں، یہ علم اور طاقت کے گٹھ جوڑ کا نام ہے۔

مشہور فلسفی میشل فوکو کے مطابق: "ڈسکورس نہ صرف علم پیدا کرتا ہے، بلکہ طاقت کو بھی قائم رکھتا ہے"۔

ہماری یونیورسٹیاں بظاہر علم کی ترسیل کا مرکز نظر آتی ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اکثر جامعات مخصوص ریاستی، مذہبی، سیاسی یا ثقافتی بیانیوں کو پروان چڑھاتی ہیں۔ جو ان بیانیوں سے ہٹے، وہ مشکوک، باغی، یا گستاخ کہلاتا ہے۔

مثالیں:

سیاست پر سوال؟ ریاست دشمن قرار دیے جاؤ۔۔

تاریخ کا متبادل بیانیہ؟ نظریاتی غدار بنو۔۔

اقلیتوں یا خواتین کے حقوق پر بات؟ بیرونی ایجنڈا کا مہرہ کہلاؤ۔۔

کلاس میں تنقید؟ ناپسندیدہ استاد بنو۔۔

یہی وہ ڈسکورس ہے جو "سچ" کو صرف طاقتور کے ہاتھ میں دیتا ہے۔

یونیورسٹی میں دو مرکزی کردار ہوتے ہیں: طالبعلم اور استاد۔

لیکن ان دونوں کی حالت کیا ہے؟

طالبعلم: خاموشی کو سیکھنے کی علامت سمجھتا ہے، سوال کرنے سے گھبراتا ہے، مخصوص نظریات پر چلنے کو "علم" سمجھتا ہے۔ اسے تعلیم کے بجائے ملازمت کی فکر سکھائی جاتی ہے۔

استاد: اکثر ڈسکورس کا محافظ بن چکا ہے، مفسر نہیں۔ وہی پڑھاتا ہے جو نصاب کہتا ہے، چاہے وہ تاریخ ہو یا جھوٹ۔ جو استاد سوال اٹھاتا ہے، وہ ادارے میں "پریشانی" سمجھا جاتا ہے۔ تحقیقی آزادی اکثر نظریاتی وفاداری سے مشروط ہوتی ہے۔

ڈسکورس صرف علم کا معاملہ نہیں، یہ طاقت کی تقسیم کا بھی معاملہ ہے۔ کون کورس ڈیزائن کرے گا؟ کون سی زبان علمی مانی جائے گی؟ کس کے مقالے کو شائع کیا جائے گا؟ یہ سب سوال ڈسکورس کے تانے بانے سے جڑے ہیں۔

یونیورسٹی وہ جگہ ہونی چاہیے جہاں عقل آزاد ہو، زبان بے باک، سوال زندہ اور تحقیق نڈر ہو۔ مگر کیا واقعی ایسا ہے؟ کیا ہماری جامعات فکری آزادی کا گہوارہ ہیں؟ یا وہاں بھی سوچنے کا عمل مخصوص نظریات، طاقتور طبقات اور ریاستی بیانیوں کی "پیشگی اجازت" سے مشروط ہے؟

جب کسی یونیورسٹی میں سوچنے سے پہلے سوچنا پڑے کہ "یہ سوچنا کتنا محفوظ ہے"، تو وہاں ڈسکورس صرف علم کی ترسیل نہیں بلکہ ذہنوں کی تشکیلِ نو کا سیاسی ہتھیار بن چکا ہوتا ہے۔

یہی ڈسکورس ہے، جو جامعات کے ہر کمرے، ہر لیکچر، ہر سیمینار، ہر مقالے میں سرایت کیے ہوتا ہے اور طلبہ و اساتذہ کو ایک خاص سانچے میں ڈھالنے کا کام کرتا ہے۔

ہماری یونیورسٹیاں اب مکالمے کی نہیں، فرمانبرداری کی فیکٹریاں بن چکی ہیں۔ وہاں علم کے نام پر نصاب رٹایا جاتا ہے اور فکرکے نام پر متفق ہونے کی تربیت دی جاتی ہے۔ آپ جو سوچتے ہیں، وہ اس وقت تک "قابلِ قبول" نہیں جب تک وہ کسی طاقتور بیانیے سے نہ جُڑا ہو۔

ریاستی بیانیہ کے خلاف بات؟ آپ غدار۔

مذہبی مکالمے میں تنقید؟ آپ مرتد یا بے دین۔

لسانی اختلاف؟ آپ قوم پرست۔

حقوقِ نسواں پر سوال؟ آپ مغربی ایجنڈا کے علمبردار۔

گویا "علم" ایک محدود رینج میں سانس لینے والا پرندہ بن چکا ہے، جس کے پروں پر نظریاتی زنجیریں ہیں۔

ہمارے تعلیمی نصاب خود "ڈسکورس" کا پہلا ذریعہ ہے۔ آپ پاکستان اسٹڈیز پڑھیں تو صرف "ایک خاص ریاستی تاریخ" ملتی ہے۔ آپ اسلامیات پڑھیں تو صرف "فقہی تسلط" کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ آپ انگریزی لٹریچر میں مغرب کے کلاسیکی مفکرین تو پائیں گے، لیکن اپنی زمین کے تخلیق کار غائب ہوں گے۔ یہ سب کچھ بے قصور نہیں، بلکہ ایک منظم "علمی سیاست" کا حصہ ہے۔

یونیورسٹی کا استاد صرف لیکچر دینے والا نہیں، وہ فکری انقلاب کا آغاز کرنے والا ہونا چاہیے۔ مگر یہاں استاد خود اس نظام کا غلام بن چکا ہے۔ جو استاد "قومی بیانیے" سے مختلف بات کرے، اسے "نافرمان" کہا جاتا ہے۔ جو استاد "طلبہ کو سوچنے پر مجبور کرے"، وہ "خطرناک" گردانا جاتا ہے۔ جو استاد تحقیق کی آزادی مانگے، وہ "انتظامی مسئلہ" بن جاتا ہے۔

اساتذہ کی تقرریاں، ترقی، پوسٹیں، سب کچھ اس بات سے منسلک ہے کہ وہ موجودہ ڈسکورس کے کتنے وفادار ہیں۔ یونیورسٹی میں تحقیق وہی "قابلِ اشاعت" سمجھی جاتی ہے جو موجودہ ڈھانچے کے حق میں ہو۔ وہ مقالے جو نئی زبان، نیا زاویہ، یا نئی سوچ لے کر آتے ہیں، انہیں اکثر "غیر سنجیدہ" یا "نقائص سے بھرپور" کہہ کر رد کر دیا جاتا ہے۔ ریسرچ سینٹرز، جرائد اور سمیسٹر پراجیکٹس بھی "ڈسکورس کے سائے" میں اپنا رخ طے کرتے ہیں۔

یورپ میں Enlightenment کی تحریک، اسلامی دنیا میں معتزلہ کی فکر، جنوبی ایشیا میں سرسید احمد خان، فیض اور فاطمہ مرنیسی، سب نے اپنی زمانے کے "ڈسکورس" کو چیلنج کیا۔ یہ وہ لوگ تھے جو "قابلِ قبول سچ" سے ہٹ کر "مشکل سچ" کو اپنانے کی ہمت رکھتے تھے۔

یونیورسٹی تبھی یونیورسٹی بنتی ہے جب وہاں ایسی جرأت زندہ ہو۔

1۔ نصاب میں متبادل بیانیوں کو شامل کیا جائے۔

2۔ اساتذہ کو تنقیدی تربیت دی جائے، صرف تعلیمی نہیں، فکری۔

3۔ طلبہ یونینز کو بحال کرکے فکری بحث کی جگہ دی جائے۔

4۔ ریسرچ کو موضوعاتی آزادی دی جائے، نہ کہ سرکاری ہدایات پر محدود رکھا جائے۔

5۔ سوال کرنے والے طالبعلم اور استاد کو "خطردا" کہنے کے بجائے "قابلِ قدر" مانا جائے۔

یونیورسٹی کا اصل چہرہ وہ ہے جہاں: استاد فقط نقال نہ ہو، نقاد بھی ہو، طالبعلم رٹو طوطا نہ ہو، سوالی ذہن رکھتا ہو، نصاب ریاستی ترجمان نہ ہو، سماجی سچ کا آئینہ ہو، تحقیق چاپلوسی نہ ہو، جستجو کا ثمر ہو۔

جب تک ہم اپنے تعلیمی اداروں کو فکری غلامی سے آزاد نہیں کرتے، تب تک ہم صرف "تعلیم یافتہ" ہوں گے، باشعور نہیں۔

سوال کرنا جرم نہیں، علم کی پہلی سیڑھی ہے۔ ڈسکورس توڑے بغیر کوئی معاشرہ آزاد نہیں ہو سکتا۔

Check Also

Bloom Taxonomy

By Imran Ismail