Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Komal Shahzadi
  4. Taleem, Waqar Aur Dikhawa

Taleem, Waqar Aur Dikhawa

تعلیم، وقار اور دکھاوا

انسان ہمیشہ سے اپنی پہچان، مرتبہ اور مقام کے اظہار کا خواہاں رہا ہے۔ مگر جدید دور میں یہ رجحان غیر معمولی طور پر بڑھ گیا ہے۔ آج کے انسان کی زندگی گویا ایک اسٹیج ہے، جہاں ہر کوئی اپنے کردار کو زیادہ سے زیادہ نمایاں کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس دِکھاوے اور نمائش کو عرفِ عام میں"شو آف" کہا جاتا ہے۔

اگر غور کیا جائے تو اس رجحان کی متعدد وجوہات سامنے آتی ہیں۔

اولاً، انسان کی فطرت میں یہ شامل ہے کہ وہ دوسروں سے اپنی اہمیت منوانا چاہتا ہے۔ تعریف و توصیف کی طلب اسے مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنی حیثیت اور صلاحیت کو زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کرے۔

ثانیاً، معاشرتی موازنہ اس کا ایک بڑا سبب ہے۔ جب کوئی شخص دوسروں کو بہتر لباس، بلند معیارِ زندگی یا جدید سہولتوں کے ساتھ دیکھتا ہے تو اسے خدشہ لاحق ہوتا ہے کہ کہیں وہ پیچھے نہ رہ جائے۔ چنانچہ وہ بھی اپنی زندگی کو نمایاں کرنے کی تگ و دو میں لگ جاتا ہے۔

ثالثاً، عدمِ تحفظ اور احساسِ کمتری بھی شو آف کی بنیاد ہے۔ بعض اوقات اندرونی کمزوریوں کو چھپانے کے لیے لوگ ظاہری نمود و نمائش کو ڈھال بنا لیتے ہیں۔

رابعاً، موجودہ صدی کا سب سے بڑا محرک سوشل میڈیا ہے۔ انسٹاگرام اور فیس بُک جیسی پلیٹ فارمز پر ہر شخص اپنی زندگی کے صرف حسین اور خوشنما پہلو دنیا کے سامنے لاتا ہے۔ اس مصنوعی تصویر نے یہ تاثر قائم کر دیا ہے کہ زندگی ہمیشہ رنگین اور مثالی ہونی چاہیے، نتیجتاً لوگ حقیقت کو چھپا کر محض دکھاوے پر انحصار کرنے لگے ہیں۔

البتہ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر نمائش کو محض منفی نگاہ سے نہیں دیکھا جا سکتا۔ بعض اوقات انسان اپنی کامیابی یا خوشی دوسروں کے ساتھ بانٹنے کے جذبے سے بھی اظہار کرتا ہے، جو انسانی تعلقات میں گرمجوشی پیدا کرتا ہے۔

شو آف کی چمک وقتی ہو سکتی ہے مگر سکونِ قلب ہمیشہ حقیقت پسندی اور قناعت میں ہی پوشیدہ ہے۔ اگر ہم دوسروں کے معیار پر اپنی زندگی کو پرکھنے کے بجائے اپنی اصل حقیقت کو قبول کر لیں، تو نہ صرف ہماری شخصیت میں وقار پیدا ہوگا بلکہ زندگی بھی حقیقی معنوں میں خوشگوار ہو جائے گی۔

حال ہی میں مجھے ایک مشہور جامعہ کی کانفرنس میں جانے کا موقع ملا۔ ماحول علمی نوعیت کا تھا، حاضرین زیادہ تر تعلیم یافتہ اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد تھے۔ میں پُر امید تھی کہ یہاں گفتگو کا محور تحقیق، فکری مباحث اور علمی نتائج ہوں گے۔ مگر ایک منظر نے میری ساری توقعات کو بدل ڈالا۔

وقفے کے دوران چند خواتین آپس میں بات کر رہی تھیں۔ میں نے سمجھا یہ کسی علمی موضوع پر تبادلہ خیال کر رہی ہیں، مگر جلد ہی احساس ہوا کہ ان کی گفتگو کا مرکز ان کے پہنے ہوئے ملبوسات اور اُن کی قیمتیں ہیں۔ ایک نے فخر سے بتایا کہ اُس کا لباس فلاں برانڈ کا ہے، دوسری نے اپنی ڈریس کی زیادہ قیمت بتا کر گویا مقابلہ جیتنے کی کوشش کی۔ یہ سب دیکھ کر میرے دل میں حیرت اور افسوس دونوں نے جنم لیا۔

میرے ذہن میں یہ سوال بار بار ابھرتا رہا: "کیا واقعی تعلیم کا مقصد صرف نمود و نمائش ہے؟"

کسی حکیم کا قول ہے: "علم اگر عاجزی نہ سکھائے تو وہ بوجھ ہے، زیور نہیں"۔

اسی حقیقت کو ایک مغربی مفکرنے یوں بیان کیا ہے:

"The function of education is to teach one to think intensively and to think critically. Intelligence plus character – that is the true goal of education. " – Martin Luther King Jr.

غالب نے کہا تھا:

آدمی کو بھی میسر نہیں انسان ہونا
ورنہ کیا چیز ہے پوشاک کے اچھے ہونے میں؟

اور رالف والڈو ایمرسن (Ralph Waldo Emerson) نے کہا:

"The ornament of a house is the friends who frequent it. "

اسی طرح، انسان کا اصل زیور اُس کا اخلاق ہے، نہ کہ اس کے ملبوسات۔ دکھاوا وقتی خوشی تو دے سکتا ہے، مگر یہ شخصیت کو اندر سے کھوکھلا کر دیتا ہے۔ جو لوگ اپنے آپ کو صرف قیمتوں کے ہیرے جواہرات سے سجانے کی کوشش کرتے ہیں، وہ اکثر اخلاق اور کردار کی دولت سے محروم رہ جاتے ہیں۔

حکیم لقمان کا قول ہے: "اگر عزت چاہتے ہو تو اسے دولت میں نہ ڈھونڈو، کردار میں تلاش کرو"۔

اسی خیال کو ایک مغربی دانشور نے یوں کہا ہے:

"Character is how you treat those who can do nothing for you. "

اصل عظمت انسان کی گفتار اور کردار میں ہے۔ بڑے وہ ہیں جن کی زبان محبت بانٹے، جن کی سادگی دوسروں کے دل جیتے اور جن کے اخلاق ان کی پہچان ہوں۔

اور ارسطو (Aristotle) نے کہا

"Educating the mind without educating the heart is no education at all. "

یہ واقعہ میرے لیے ایک سبق تھا۔ میں نے جانا کہ تعلیم اور اعلیٰ ظرفی دو الگ حقیقتیں ہیں۔ ڈگریاں انسان کو کاغذ پر معتبر بنا دیتی ہیں، مگر اصل وقار اور عزت کردار، سادگی اور انکساری سے ملتی ہے۔

Check Also

Hum Mein Se Log

By Najam Wali Khan