Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Komal Shahzadi
  4. Sialkot Ki Doobti Sarken Aur Behta Hua Nizam

Sialkot Ki Doobti Sarken Aur Behta Hua Nizam

سیالکوٹ کی ڈوبتی سڑکیں اور بہتا ہوا نظام

سیالکوٹ، وہی شہر جس نے دنیا بھر میں کھیلوں کے میدان کو فتح کیا، جس کے صنعتی کارنامے ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھے جاتے ہیں اور جس کی عوام محنت، خلوص اور وفاداری کی مثال ہے، آج بارش کے چند قطروں سے گھبرا جاتا ہے۔ موسم کی پہلی نمی، فضا میں تازگی اور بادلوں کی گرج سن کر جہاں باقی شہروں کے لوگ خوش ہوتے ہیں، وہاں سیالکوٹ کے باسی دل تھام لیتے ہیں۔ وجہ؟ نکاسی آب کا وہ نظام جو ہے تو سہی، مگر یا تو زنگ آلود ہے، یا دفن ہو چکا ہے، یا صرف نقشے میں موجود ہے۔

بارش فطرت کا حسین اظہار ہے۔ زمین کے لیے پیاس بجھانے والی، زرخیزی بڑھانے والی اور درجہ حرارت کو معتدل کرنے والی ایک نعمت۔ لیکن جب شہری منصوبہ بندی کا فقدان ہو، جب نکاسی کا نظام سالہا سال پرانا ہو، جب نالے صفائی نہ ہونے کی وجہ سے بند ہوں اور جب حکومت کاغذی اجلاسوں سے آگے نہ بڑھے، تب یہی بارش زحمت کا دوسرا نام بن جاتی ہے۔

سیالکوٹ میں جون، جولائی، اگست کی بارشیں کسی قیامت سے کم نہیں ہوتیں۔ دو گھنٹوں کی بارش کے بعد گلیوں کا نقشہ بدل جاتا ہے۔ کچھ علاقوں میں پانی کا بہاؤ اتنا شدید ہوتا ہے کہ نہ صرف ٹریفک جام ہو جاتا ہے، بلکہ لوگ گھروں میں محصور ہو کر رہ جاتے ہیں۔

سیالکوٹ میں نکاسی کا نظام گویا ایک پرانی فائل کی طرح ہے، جس پر وقتاً فوقتاً خاک جھاڑی جاتی ہے، مگر اس کے اندر تبدیلی کی کوئی تحریر موجود نہیں۔ ہر سال مون سون سے پہلے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ نالوں کی صفائی مکمل ہے، پمپس نصب کر دیے گئے ہیں، ہنگامی پلان تیار ہے، لیکن جیسے ہی بارش ہوتی ہے، سارا سسٹم پانی میں بہہ جاتا ہے۔

مین ہول کھلے ہوتے ہیں، پانی سڑکوں پر کھڑا ہوتا ہے اور نالے گندگی سے لبریز ہوتے ہیں۔ بعض مقامات پر تو نکاسی کے لیے کوئی متبادل راستہ بھی موجود نہیں ہوتا۔ نتیجتاً، گھروں میں گندہ پانی داخل ہو جاتا ہے، دکانیں بند ہو جاتی ہیں، بیماریاں پھیلتی ہیں اور بچوں کی تعلیم و تربیت متاثر ہوتی ہے۔

اس نظام کی قیمت سب سے زیادہ عام آدمی کو چکانی پڑتی ہے۔ وہ مزدور جو روزانہ مزدوری پر نکلتا ہے، وہ عورت جو بیمار بچے کو لے کر اسپتال جاتی ہے، وہ بزرگ جو محلے کی مسجد تک جانے کی خواہش رکھتا ہے، سب بارش کے بعد بے بس نظر آتے ہیں۔ بعض علاقوں میں لوگ اپنی مدد آپ کے تحت نکاسی کرتے ہیں۔ لوٹے، بالٹیاں، موٹریں اور پائپ ان کے ہتھیار بن جاتے ہیں۔

یہ وہ لوگ ہیں جو ٹیکس بھی دیتے ہیں، محنت بھی کرتے ہیں، ووٹ بھی ڈالتے ہیں، لیکن ہر سال سیلاب کی مانند بہنے والے پانی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیے جاتے ہیں۔

بلدیاتی ادارے، میونسپل کارپوریشن، واسا اور صوبائی حکومت، سب اپنی جگہ موجود ہیں، مگر عوام کی آواز وہاں نہیں پہنچتی۔ اکثر علاقوں میں نکاسی کے لیے جو پائپ لائنیں موجود ہیں وہ یا تو چھوٹی ہیں یا ٹوٹ پھوٹ چکی ہیں۔ مزید ستم یہ کہ سیالکوٹ ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور دیگر ادارے اکثر آپس میں اختیارات کی جنگ میں الجھے ہوتے ہیں، جس کا خمیازہ صرف عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔

یہ مسئلہ صرف شہری زندگی کو متاثر نہیں کرتا، بلکہ سیالکوٹ کی صنعتی پیداوار کو بھی شدید نقصان پہنچاتا ہے۔ سیالکوٹ ڈرائی پورٹ، ایکسپورٹ زون اور مختلف کارخانوں میں بارش کے بعد پانی کھڑا ہو جاتا ہے، مشینیں متاثر ہوتی ہیں، ورکرز پہنچ نہیں پاتے اور وقت پر مال برآمد نہیں ہوتا۔ یہ وہ نقصانات ہیں جو صرف مقامی نہیں بلکہ قومی معیشت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ اس صورتحال کا حل کیا ہے؟ حل نہ تو مشکل ہے اور نہ ہی مہنگا، مسئلہ صرف نیت، ترجیح اور شفافیت کا ہے۔

1۔ نکاسی کے نظام کا مکمل آڈٹ کیا جائے۔

2۔ نالوں اور سیوریج لائنوں کی فوری صفائی کی جائے۔

3۔ جدید ماڈل پر مبنی نکاسی کا منصوبہ بنایا جائے، جیسے لاہور یا اسلام آباد میں موجود ہیں۔

4۔ عوامی شمولیت کے ساتھ نگرانی کا نظام تشکیل دیا جائے۔

5۔ نالوں پر تجاوزات کا فوری خاتمہ کیا جائے۔

سیالکوٹ صرف ایک شہر نہیں، پاکستان کا فخر ہے۔ یہ وہ سرزمین ہے جہاں سے برآمدات، روزگار اور تعلیمی ترقی کا آغاز ہوتا ہے۔ اگر ہم اس شہر کی سڑکوں کو پانی میں ڈوبتا دیکھتے رہیں گے، تو یہ صرف سیالکوٹ کا نقصان نہیں ہوگا، بلکہ پورے ملک کا ہوگا۔

بارش اب بھی نعمت بن سکتی ہے، اگر ہم اس کے استقبال کے لیے تیار ہوں، اس کی روانی کو نظم دیں اور اس کے راستے میں نکاسی کے بہاؤ کو روکا نہ جائے، بلکہ سہارا دیا جائے۔

Check Also

Bloom Taxonomy

By Imran Ismail