PHD Ke Liye Publication, Aik Ilmi Taqaza Ya Munafa Bakhsh Karobar?
پی ایچ ڈی کے لیے پبلیکیشن، ایک علمی تقاضا یا منافع بخش کاروبار؟
کسی زمانے میں علم کی تلاش ایک عبادت سمجھی جاتی تھی، تحقیق کا میدان جذبۂ خدمت سے لبریز ہوتا تھا اور کسی مقالے کی اشاعت کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ انسانی فلاح و بہبود کے لیے کوئی نئی راہ ہموار کی گئی ہے۔ لیکن آج کے دور میں یہی تحقیق، یہی اشاعت اور یہی "علم" ایک کاروباری ماڈل میں ڈھل چکا ہے، جہاں پی ایچ ڈی کرنے والے طالب علم کے لیے پبلیکیشن نہ صرف مجبوری ہے بلکہ ایک معاشی بوجھ بھی۔
جامعات کا تقاضا ہے کہ پی ایچ ڈی کی ڈگری کے لیے کم از کم ایک یا دو بین الاقوامی تحقیقی مقالے (Research Publications) اشاعت شدہ ہوں۔ بظاہر یہ شرط علمی معیار کو بلند رکھنے کی نیت سے رکھی گئی، لیکن عملاً یہ ایک ایسا دروازہ بن چکی ہے جو "ادائیگی کرو، مقالہ چھپواؤ" کے اصول پر کھلتا ہے۔
یہی وہ مقام ہے جہاں سے ایک خاموش مگر طاقتور کاروبار کا آغاز ہوتا ہے۔ بین الاقوامی تحقیقی جرنلز، چاہے وہ کتنے ہی معتبر کیوں نہ ہوں، اکثر Article Processing Charges کے نام پر ہزاروں ڈالر طلب کرتے ہیں۔ ایسے میں ایک اوسط محقق، جس کی کوئی گرانٹ نہیں، وہ اپنی جیب سے یہ ادائیگیاں کرے یا تحقیق کرے؟
پھر میدان میں آتے ہیں "پریڈیٹری جرنلز"، ایسے تحقیقی رسائل جو بظاہر بہت پیشہ ور لگتے ہیں مگر اصل میں ان کا مقصد صرف فیس وصول کرنا ہوتا ہے۔ یہاں معیار کی کوئی پروا نہیں، بس مقالہ جلد از جلد شائع ہو جائے تاکہ طالبعلم اپنی ڈگری مکمل کر سکے۔
یہ سب دیکھ کر اکثر یہ سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ کیا واقعی تحقیق کا معیار بہتر ہو رہا ہے؟ یا پھر ہم صرف کاغذی کاروائیوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں؟ علم کا اصل مقصد، سوال اٹھانا، حقیقت تلاش کرنا، معاشرے کو سمجھنا، کہیں ان فیسوں، ڈیڈ لائنز اور جرنلز کی دوڑ میں دفن ہوتا جا رہا ہے۔
اساتذہ اور جامعات بھی مجبور ہیں۔ HEC جیسے ادارے اشاعت کو ترقی، گرانٹ اور اسکالرشپ کا معیار بنائے ہوئے ہیں۔ نتیجتاً تحقیق کی روح نکل گئی اور محض "پبلیکیشن برائے ڈگری" کا رحجان پروان چڑھ رہا ہے۔
اس کاروبار کو روکنے کے لیے ہمیں اپنے نظام تعلیم اور تحقیقی پالیسیوں پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔ ہمیں اوپن ایکسیس، فری اشاعت والے معیار پر مبنی جرنلز کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ ساتھ ہی محققین کو یہ سمجھانا ضروری ہے کہ علم کا اصل فائدہ تب ہی ہوتا ہے جب وہ معاشرے سے جڑا ہو، نہ کہ صرف جرنلز کی فہرست کی زینت بنے۔
جب تک ہم تحقیق کو صرف اشاعت کا ذریعہ سمجھتے رہیں گے، ہم صرف کاغذ پر علم تخلیق کریں گے، زمین پر نہیں۔
ایک طالب علم جس کا اصل مقصد علمی تحقیق ہونا چاہیے، اب اشاعت کی فکر میں مبتلا ہوتا ہے۔ اسے ڈگری کے حصول کے لیے اپنے مقالے کو جلد از جلد کسی بھی جرنل میں شائع کروانا ہوتا ہے۔ نتیجتاً معیار سے زیادہ اہمیت "اشاعت" کو دی جانے لگی ہے۔
بین الاقوامی تحقیقی جرنلز کا تجزیہ کریں تو اکثر ایسے ادارے نظر آئیں گے جو تحقیق سے زیادہ Article Processing Charges (APC) کے ذریعے کمائی پر توجہ دیتے ہیں۔ ایک مقالہ شائع کروانے کے لیے بعض اوقات 500 سے 3000 ڈالر تک کی فیس طلب کی جاتی ہے۔ وہ طالب علم جو پہلے ہی محدود وسائل کا شکار ہوتا ہے، اس کے لیے یہ رقم ناقابل برداشت ہوتی ہے۔
اس سے بھی خطرناک رجحان Predatory Journals کا ہے۔ یہ ایسے غیر معیاری اور دھوکہ دہ جرنلز ہوتے ہیں جو محض پیسوں کے عوض بغیر کسی جائز علمی جانچ کے مقالے شائع کر دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک نہ تو تحقیق کی افادیت اہم ہے، نہ معیار، نہ حوالہ، نہ ہی Peer Review. صرف فیس دو اور اشاعت حاصل کرو۔
اس سارے نظام کا سب سے المناک پہلو یہ ہے کہ تحقیق کی روح مجروح ہوگئی ہے۔ نہ موضوع میں جدت ہوتی ہے، نہ نتائج کا کوئی عملی فائدہ، نہ قاری کے لیے کوئی نئی بات۔ بیشتر پی ایچ ڈی مقالے صرف اشاعت کی شرط پوری کرنے کے لیے لکھے جاتے ہیں اور اشاعت کے بعد الماریوں یا ڈیجیٹل آرکائیو میں دفن ہو جاتے ہیں۔
اساتذہ بھی اسی نظام کے اسیر ہو چکے ہیں۔ ترقی، تنخواہ، گرانٹ اور مراعات کا دارومدار بھی پبلیکیشنز کی تعداد پر ہے، معیار پر نہیں۔ اساتذہ اور طالبعلم دونوں مجبور ہیں کہ کسی نہ کسی طرح اشاعت کا ہدف مکمل کریں، خواہ اس کے لیے علمی دیانت قربان کیوں نہ کرنی پڑے۔
اس کاروباری نظام سے نجات پانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم تعلیمی پالیسیوں پر نظرثانی کریں۔ چند ممکنہ اصلاحات:
1۔ معیاری اوپن ایکسیس جرنلز کی حوصلہ افزائی جن میں مقالے بغیر فیس کے شائع ہوں اور Peer Review سخت ہو۔
2۔ پبلیکیشن کی شرط کا ازسرنو جائزہ، اشاعت کی بجائے اصل تحقیق کے معیار پر زور دیا جائے۔
3۔ ریسرچ فنڈنگ کے نظام کو شفاف بنایا جائے تاکہ طالبعلم اپنی تحقیق کے لیے مالی طور پر بااختیار ہو۔
4۔ اساتذہ کی ترقی اور تنخواہ کے لیے معیارِ تحقیق کو بنیاد بنایا جائے، نہ کہ تعداد کو۔
5۔ طلبہ کو تحقیقی اخلاقیات، معیاری اشاعت اور جرنل سلیکشن کی باقاعدہ تربیت دی جائے۔
تحقیق کو اگر واقعی معاشرے کی خدمت کا ذریعہ بنانا ہے تو اسے اشاعت کے کاروباری جال سے نکالنا ہوگا۔ علم کو بازار کی منڈی میں بیچنا نہیں، فکری میدان میں آزمانا چاہیے۔ ہمیں ایسے تعلیمی ماحول کی ضرورت ہے جہاں مقالہ ڈگری کے لیے نہ لکھا جائے بلکہ انسانیت کی رہنمائی کے لیے لکھا جائے۔
بصورتِ دیگر، ہم پی ایچ ڈی یافتہ افراد تو پیدا کر لیں گے، مگر سچے محققین اور مفکرین سے ہمیشہ محروم رہیں گے۔

