Orientalism Aur Aaj Ka Muashra
اورینٹلزم اور آج کا معاشرہ
ایڈورڈ سعید کی کتاب Orientalism کو گہرائی سے پڑھنے کے بعد یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ مغرب کی صدیوں پرانی اس پالیسی کو بے نقاب کرتا ہے جس کے ذریعے مشرق (Orient) کو ہمیشہ کمتر، پسماندہ اور غیر مہذب بنا کر پیش کیا گیا۔ اس کتاب میں سعید نے بتایا کہ مغربی علم، ادب اور سیاست کس طرح ایک دوسرے کے ساتھ مل کر مشرق پر فکری اور تہذیبی غلبہ قائم کرتے ہیں۔
یہ کتاب مغرب کے اُس دعوے کو چیلنج کرتی ہے کہ صرف مغربی نقطۂ نظر ہی درست ہے۔ سعید نے یہ بات واضح کی کہ مغربی دانشوروں اور اداروں نے مشرق کو جس طرح پیش کیا، وہ حقیقت نہیں بلکہ طاقت کے کھیل کا حصہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ان کے خیالات نے مغرب کے علمی و سیاسی حلقوں میں سخت بےچینی پیدا کی۔
ان پر سب سے بڑی تنقید یہ ہوئی کہ وہ مغرب کی منافقت اور سامراجی سوچ کو عیاں کر رہے ہیں۔ اسی سبب انہیں اپنے ہی وطن (فلسطین/عرب دنیا کے پس منظر کے ساتھ امریکہ و مغرب میں) مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور بعض حلقوں نے انہیں اپنے لیے خطرہ سمجھ کر تنہا کرنے کی کوشش کی۔
ایڈورڈ سعید نے اپنی کتاب میں یہ لکھا کہ مغربی علم و ادب غیر جانبدار نہیں بلکہ طاقت کے مفاد میں استعمال ہوا ہے۔ یہی ان کا سب سے بڑا جرم سمجھا گیا اور اسی وجہ سے انہیں اپنے ہی ملک اور مغربی معاشروں سے شدید مخالفت اور تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
ایڈورڈ سعید کی شہرۂ آفاق کتاب "Orientalism" صرف نوآبادیاتی دور کے علمی و سیاسی رویوں کی عکاسی نہیں کرتی بلکہ آج کے معاشرے کے تناظر میں بھی ایک زندہ نظریہ کے طور پر سامنے آتی ہے۔ اگر اس کتاب کو آج کی دنیا سے جوڑ کر دیکھا جائے تو کئی اہم پہلو سامنے آتے ہیں:
سعید کے مطابق مغرب نے ہمیشہ مشرق کو پسماندہ، غیر مہذب اور غیر ترقی یافتہ ظاہر کیا تاکہ اپنی برتری کو جائز قرار دے سکے۔ جیسا کہ وہ لکھتے ہیں:
"The Orient was almost a European invention, and had been since antiquity a place of romance, exotic beings, haunting memories and landscapes, remarkable experiences. "
آج بھی مغربی میڈیا اور عالمی سیاست میں یہی رویہ دکھائی دیتا ہے جہاں مشرقی ممالک کو کمزور اور محتاج کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ فلسطین کی موجودہ صورتحال اس کی واضح مثال ہے، جہاں مغربی میڈیا اکثر اسرائیلی مظالم کو نظرانداز کرتا ہے اور فلسطینی جدوجہد کو شدت پسندی سے جوڑ دیتا ہے۔
Orientalism محض تحقیق یا مطالعہ نہیں بلکہ طاقت کا ہتھیار بھی تھا۔ مغرب نے علم کے ذریعے اپنی سیاسی گرفت مضبوط کی۔ سعید کے الفاظ
"Knowledge of the Orient, because generated out of strength, in a sense creates the Orient, the Oriental, and his world."
آج کے دور میں بھی عالمی میڈیا، تھنک ٹینکس اور اکیڈمک اداروں کے ذریعے یہی بیانیہ قائم رکھا جاتا ہے کہ دنیا کو مغرب کی آنکھ سے ہی دیکھا جائے۔ مسلمانوں اور مشرقی معاشروں کو عموماً اسی زاویے سے پیش کیا جاتا ہے۔
نوآبادیات کا زمانہ بظاہر ختم ہو چکا ہے لیکن اس کی جگہ "ثقافتی نوآبادیات" نے لے لی ہے۔ مغربی زبان، فیشن، اقدار اور میڈیا آج بھی مشرقی معاشروں پر اثر انداز ہو رہے ہیں اور مقامی شناخت کمزور پڑتی جا رہی ہے۔ گلوبلائزیشن نے اس عمل کو اور تیز کر دیا ہے، جہاں مقامی کلچر اکثر عالمی مارکیٹ اور مغربی اثرات کے نیچے دب جاتا ہے۔
ایڈورڈ سعید اس بات پر زور دیتے ہیں کہ مشرق کو ہمیشہ مغربی زاویے سے بیان کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم معاشروں کو دہشت گردی، شدت پسندی یا غربت کے خانوں میں فٹ کرکے پیش کیا جاتا ہے۔ افغانستان، عراق اور پاکستان کے بارے میں مغربی میڈیا کے بیانیے اس حقیقت کی تازہ مثالیں ہیں۔
ایڈورڈ سعید کا سب سے اہم پیغام یہی ہے کہ مشرق کو اپنی نمائندگی خود کرنی چاہیے۔ اپنی تہذیب، اپنی تاریخ اور اپنی اقدار کو اپنی نظر سے دیکھنا اور دنیا کے سامنے پیش کرنا ہی اصل مزاحمت ہے۔ سوشل میڈیا نے اگرچہ اس حوالے سے کچھ سہولت پیدا کی ہے کہ مشرقی آواز براہِ راست دنیا تک پہنچ سکے، مگر پھر بھی مغربی پلیٹ فارمز پر اس آواز کو اکثر دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
خلاصہ یہ کہ "Orientalism" ہمیں یہ سمجھاتا ہے کہ آج کا معاشرہ بھی نوآبادیاتی ذہنیت سے آزاد نہیں ہو سکا۔ مغربی برتری کا بیانیہ اب بھی موجود ہے، بس اس کی شکلیں بدل گئی ہیں۔ فلسطین کی جنگ، گلوبلائزیشن کا دباؤ اور مسلم دنیا کی نمائندگی کا مسئلہ اس بات کی تازہ مثالیں ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مشرق اپنی شناخت کو خود تشکیل دے اور اپنی تہذیب کو اپنی آنکھ سے دیکھنے کی جرات پیدا کرے۔
جیسا کہ سعید نے کتاب کے آخر میں زور دیا:
"No one today is purely one thing. Labels like Indian, or woman, or Muslim, or American are not more than starting-points, which if followed into actual experience for only a moment are quickly left behind."

