Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Komal Shahzadi
  4. Kya Siasat Ideology Nahi?

Kya Siasat Ideology Nahi?

کیا سیاست آئیڈیالوجی نہیں؟

ہم سیاست کو روز دیکھتے ہیں، سنتے ہیں، اس پر تبصرہ کرتے ہیں، بلکہ اکثر اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ مگر بہت کم لوگ اس سوال پر غور کرتے ہیں کہ "سیاست کیا صرف طاقت کا کھیل ہے، یا یہ کسی نظریاتی ڈھانچے کی نمائندہ بھی ہو سکتی ہے؟"

یہ سوال نہ صرف فکری ہے بلکہ عملی بھی، کیونکہ اس کا جواب ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دیتا ہے کہ ہم جس نظام میں جی رہے ہیں، وہ کس بنیاد پر کھڑا ہے۔

سیاست کو عموماً "اقتدار حاصل کرنے کا ہنر" سمجھا جاتا ہے اور بدقسمتی سے موجودہ دور میں یہی مفہوم غالب نظر آتا ہے۔ مگر اگر ہم سیاسیات کو گہرائی سے دیکھیں تو وہ محض طاقت کی منتقلی کا ذریعہ نہیں، بلکہ یہ اس نظامِ فکر کی عملی شکل ہے جو کسی معاشرے کے انسان، ادارے اور ریاست سے متعلق بنیادی سوالات کے جوابات مہیا کرتا ہے۔

جب ہم سوال کرتے ہیں: فرد کی آزادی کہاں تک ہو؟ ریاست کا کردار کیا ہو؟ مساوات کیوں اور کس حد تک ہونی چاہیے؟ مذہب کی حدود کیا ہوں؟ تو یہ تمام سوالات سیاست سے متعلق ضرور ہیں، مگر ان کے جوابات صرف آئیڈیالوجی یعنی نظریے سے ملتے ہیں۔

آئیڈیالوجی دراصل وہ فکری سانچہ ہے جو سیاست کو ایک سمت دیتا ہے۔ یہ ہمیں یہ سمجھاتا ہے کہ کسی ملک کا سیاسی ڈھانچہ کس اصول پر کھڑا ہے، کیا اس کی بنیاد سرمایہ داری ہے یا سوشلسٹ فکر؟ کیا وہ جمہوریت پر یقین رکھتا ہے یا آمریت پر؟ کیا مذہب کو اس میں کوئی جگہ حاصل ہے یا ریاست مکمل طور پر سیکولر ہے؟

یہ تمام اصول نظریاتی ہوتے ہیں اور یہی اصول سیاست کو محض اقتدار کی جدوجہد سے بلند کرکے ایک فکری تحریک بنا دیتے ہیں۔

دنیا کی بڑی سیاسی تحریکیں درحقیقت نظریاتی بنیادوں پر کھڑی ہوئیں:

سوشلسٹ سیاست نے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف مزاحمت کی، مزدور اور کسان کو مرکز میں رکھا اور دولت کی منصفانہ تقسیم کا نعرہ بلند کیا۔

اسلامی سیاست نے عدل، شریعت، روحانیت اور مساوات کو ریاستی اصولوں میں شامل کرنے کی کوشش کی۔

صہیونیت نے ایک مخصوص نسل کی بالادستی اور ریاستی خودمختاری کے نظریے پر اپنی بنیاد رکھی۔

جمہوری سیاست نے "عوام کی رائے" کو مرکز مانا اور سیاسی عمل کو عام شہری کی دسترس میں لانے کی کوشش کی۔

ان تمام ماڈلز میں ایک مشترکہ چیز تھی، نظریہ۔

اب ذرا ہم اپنے خطے کی سیاست کا جائزہ لیں تو منظر مختلف نظر آتا ہے۔ برصغیر کی تحریک آزادی ہو یا قیام پاکستان، یہ سب نظریاتی بنیادوں پر کھڑے ہوئے۔ قائداعظم محمد علی جناح نے دو قومی نظریہ پیش کیا، علامہ اقبال نے اسلامی ریاست کا خواب دکھایا اور پاکستان ایک نظریاتی ملک کے طور پر وجود میں آیا۔

مگر افسوس! آج ہماری سیاست اس نظریاتی اساس سے کہیں دور جا چکی ہے۔ آج سیاست:

برادریوں میں بٹی ہوئی ہے۔

لسانی تعصبات میں گھری ہوئی ہے۔

مفاد پرست ٹولوں کا کھیل بن چکی ہے۔

اور سب سے بڑھ کر، نظریہ صرف تقریروں میں زندہ ہے، عمل میں نہیں۔

آج کا سیاستدان نظریہ نہیں، نفع دیکھتا ہے۔ وہ منشور نہیں، مصلحت پر یقین رکھتا ہے۔ آج پارٹیاں بدلی جاتی ہیں جیسے کپڑے بدلے جاتے ہیں، کیونکہ اصول کوئی نہیں، صرف موقع پرستی ہے۔

جب سیاست نظریے سے کٹ جائے تو وہ محض ایک فنکاری رہ جاتی ہے، ایک ایسا عمل جو چالاکی سے اقتدار حاصل کرنے کا ذریعہ بن جائے، مگر عوام کی رہنمائی نہ کرے۔ ایسی سیاست سے:

ادارے کمزور ہوتے ہیں۔

کرپشن بڑھتی ہے۔

اور قوم انتشار کا شکار ہو جاتی ہے۔

ہمیں ایسی سیاست درکار ہے جو:

نظریاتی ہو، نہ کہ مصلحت پسند۔

اصولوں کی بنیاد پر فیصلے کرے، نہ کہ دھڑوں کی خوشنودی پر۔

عوام کی فلاح کو مقصد بنائے، نہ کہ ذاتی اقتدار کو۔

اور سب سے بڑھ کر، قوم کی سمت طے کرے، نہ کہ اقتدار کی قیمت پر سمجھوتے کرے۔

ہمیں سیاستدان نہیں، بلکہ نظریہ رکھنے والے رہنما درکار ہیں، جو قوم کو منزل دکھا سکیں، جو اقتدار کے لیے نہیں بلکہ قوم کی خدمت کے لیے آگے آئیں۔

سیاست بذاتِ خود کوئی نظریہ نہیں، بلکہ ایک عملی میدان ہے، مگر یہ میدان خالی، بےسمت اور گمراہ کن ہو جاتا ہے اگر اس کی رہنمائی نظریہ نہ کرے۔

لہٰذا، اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری قوم ترقی کرے، ادارے مضبوط ہوں اور عوام کو حقیقی آزادی حاصل ہو، تو ہمیں ایک ایسی سیاست کی طرف پلٹنا ہوگا جو سوچ رکھتی ہو، اصول رکھتی ہو، نظریہ رکھتی ہو۔

وگرنہ سیاست ایک ایسا تماشہ بن جائے گی، جس کے کردار بدلتے رہیں گے، مگر اسکرپٹ ہمیشہ ایک ہی رہے گا:

اقتدار، مفاد اور خاموشی۔

Check Also

Gumshuda

By Nusrat Sarfaraz