Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Komal Shahzadi
  4. Kya Hamara Muashra Alamiyat Par Mushtamil Hai?

Kya Hamara Muashra Alamiyat Par Mushtamil Hai?

کیا ہمارا معاشرہ المیات پر مشتمل ہے؟

ہم جس معاشرے میں سانس لیتے ہیں، وہاں قدم قدم پر کہانیاں بکھری پڑی ہیں، کچھ کہانیاں مسکراہٹ سے روشن اور کچھ آنسوؤں میں بھیگی ہوئی۔ مگر دل کا سوال ہمیشہ یہی رہتا ہے: کیا واقعی ہمارا معاشرہ المیات پر مشتمل ہو چکا ہے؟

یہ سوال ہوا میں تیر نہیں بلکہ ایک گہرا سماجی تجزیہ طلب کرتا ہے۔ معاشرہ کبھی ایک دن میں نہیں بنتا، نہ ہی ایک لمحے میں بکھرتا ہے۔ یہ صدیوں کے رویّوں، سالوں کے تجربوں اور دنوں کے فیصلوں سے ڈھلتا ہے اور آج کے دور میں یہ تاثر عام ہو چکا ہے کہ ہمارے مجموعی طرزِ فکر میں المیے زیادہ اور مسرتیں کم رہ گئی ہیں۔

انسان کا سب سے قیمتی جوہر احساس ہے اور جب احساس مر جائے تو معاشرے زندہ رہتے ہوئے بھی مردہ ہو جاتے ہیں۔ کسی نے سچ کہا تھا: "دلوں کا ویران ہونا مکانوں کے ویران ہونے سے بڑا سانحہ ہے"۔

ہمارے دلوں میں جگہ تو ہے، مگر تعلقات میں گنجائش کم ہوگئی ہے۔ ہمیں دیکھنے والے بہت ہیں، سمجھنے والے کم۔ یہی وہ المیہ ہے جس نے معاشرتی رشتوں کی بنیادیں ہلا دیں۔ غربت، ناانصافی، رشوت، سفارش۔ یہ الفاظ نہیں، یہ وہ تیر ہیں جو ہر روز معاشرتی جسم کو چھیدتے ہیں۔ اقبال نے کہا تھا:

ستم پہ ستم ہے کہ چارہ گروں
کو خبر بھی نہیں کہ درد کیا ہے

ہمارے نظام میں موجود خامیاں، کمزور طبقے کی بے بسی اور طاقتور کی اجارہ داری ایسے المیے ہیں جنہیں ہم نے جیسے معمول سمجھ لیا ہے۔ کتابیں ہیں، مگر شعور نہیں۔ ڈگریاں ہیں، مگر سوچنے کی قوت کمزور۔ ہماری تعلیم روزگار دیتی ہے، کردار نہیں دیتی اور یہی وہ جگہ ہے جہاں سے المیات کی طویل قطار شروع ہوتی ہے۔

پروفیسر احمد رفیق اختر نے کہا تھا: "تعلیم انسان کو بدلتی ہے، لیکن شعور انسان کو بناتا ہے"۔

ہمارے ہاں شعور کے دروازے بند ہوتے جا رہے ہیں، یہی سب سے بڑا المیہ ہے۔ جب قومیں ترقی کرتی ہیں تو ان کی شاہراہوں کے کنارے عمارتیں نہیں، کردار بلند ہوتا ہے۔ ہم نے عمارتیں تو بنا لیں مگر انسانوں کو گرا دیا۔ فیضؔ آج ہوتے تو شاید یوں کہتے:

یہی جرم ہے میرا کہ میں نے
اندھیروں میں بھی چراغ جلانے کی ضد کی

لیکن ہم نے چراغ جلانے کی بجائے تنقید، حسد، نفرت اور دشمنی کی آگ بھڑکا دی ہے۔ یہ آگ آج ہر گھر میں سلگ رہی ہے۔ گھر بڑے ہو رہے ہیں۔ دل چھوٹے ہو رہے ہیں۔ فاصلے جغرافیہ میں نہیں، دلوں میں اُتر گئے ہیں۔ شاعر نے شاید آج کے معاشرے کی تصویر کچھ یوں کھینچی:

چہرے تو سب ہنستے ہیں مگر آنکھیں سب کہتی ہیں
یہ شہر مقتل بھی ہے اور مرہم بھی ساتھ رکھتا ہے

ہمارے تعلقات میں موجود سرد مہری، عدم برداشت، انا پرستی۔ یہ سب چھوٹے چھوٹے المیے مل کر ایک بڑے المیے کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ ہر روز خبریں، حادثات، تنازعات، سیاست۔ یہ سب ذہن پر ایسا دباؤ بناتے ہیں کہ لوگ خود کو مسلسل المیہ کی فضا میں گھرا ہوا محسوس کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جدید معاشرے میں لوگ ذہنی تھکن کا شکار ہونے لگے ہیں۔

جین پال سارتر کا قول یاد آتا ہے: "انسان اپنے دکھ سے نہیں۔ اس کے نہ ختم ہونے کے احساس سے ٹوٹتا ہے"۔

ہم بھی اسی مستقل دباؤ میں ٹوٹنے لگے ہیں۔ لیکن، معاشرہ صرف المیہ نہیں، امید بھی ہے۔ یہ کہنا غلط ہوگا کہ ہمارا معاشرہ مکمل طور پر المیات سے بھرا ہے۔ یہ وہی مٹی ہے جس نے اولیاء پیدا کیے۔ یہ وہی زمین ہے جس نے شاعر، ادیب، مفکر اور خدمت گزار لوگ پیدا کیے۔ اب بھی بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اندھیرے میں چراغ بنے ہوئے ہیں۔ وہ خاموشی سے بھلائی کرتے ہیں۔ بے لوث خدمت کرتے ہیں اور معاشرے میں روشنی کی وہ کرنیں ہیں جو ابھی بجھی نہیں۔

جیسا کہ شاعر نے کہا:

ہوا چلے بھی تو یہ دھیما سا نور باقی ہے
یہی امید کا چراغ ہے، اسے بجھنے نہ دینا

آخر میں ایک حقیقت ہمارا معاشرہ المیات پر قائم نہیں۔ مگر المیات سے مجروح ضرور ہے۔ ہمارا کام انہیں بڑھانا نہیں۔ انہیں کم کرنا ہے۔ اگر ہر فرد صرف ایک چھوٹا سا چراغ جلا دے۔ سچائی کا، اخلاق کا، احساس کا، رحم کا۔ تو یہ سارے المیے دھیرے دھیرے تحلیل ہونے لگیں گے۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari