Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Komal Shahzadi
  4. Khamosh Cheekh, Civil Servants Ki Khud Kushi Ka Almiya

Khamosh Cheekh, Civil Servants Ki Khud Kushi Ka Almiya

خاموش چیخ، سول سرونٹس کی خودکشی کا المیہ

"کبھی کبھی طاقت کے عہدے پر بیٹھا شخص اندر سے سب سے زیادہ کمزور ہوتا ہے"۔

یہ جملہ ایک ایسے افسر نے اپنی ڈائری میں لکھا تھا جو اگلے ہی ہفتے خودکشی کر گیا۔ یہ واقعہ کسی ایک شخص کا نہیں، بلکہ ایک ادارہ جاتی المیہ کی علامت ہے۔ ایک ایسا نظام جو دوسروں کے لیے انصاف بانٹتا ہے مگر اپنے لوگوں کے لیے سکون نہیں رکھتا۔

سول سروس کا شمار معاشرے کے سب سے باوقار اور طاقتور پیشوں میں ہوتا ہے۔ مگر یہ طاقت اکثر ایک ناقابلِ برداشت دباؤ کے ساتھ آتی ہے۔ ہر روز درجنوں فائلیں، سینکڑوں فیصلے، ہزاروں توقعات۔ ہر دستخط ایک ذمہ داری ہے، ایک غلط فیصلہ کسی کی زندگی بدل سکتا ہے۔

"ہر فائل کے پیچھے ایک کہانی ہوتی ہے اور ہر کہانی کے پیچھے ایک انسان"۔

یہ احساس افسر کے ذہن پر مسلسل دباؤ ڈالتا ہے۔ جب اس کے ساتھ عوامی تنقید، میڈیا ٹرائل اور سیاسی دباؤ بھی شامل ہو جائے تو انسان اندر سے ٹوٹنے لگتا ہے۔ سول سرونٹس اکثر سیاسی احکامات اور انتظامی اصولوں کے درمیان پھنس جاتے ہیں۔ بہت سے ایماندار افسران کے لیے یہ ایک مسلسل جنگ ہوتی ہے۔ ایک طرف ضمیر، دوسری طرف طاقتور لوگ۔

"جب آپ قانون کے مطابق چلنا چاہتے ہیں، نظام آپ کو مجرم بنا دیتا ہے"۔

غیر منصفانہ تبادلے، جھوٹی انکوائریاں اور بدنامی کا خوف ان کی ذہنی حالت پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ بعض اوقات ایک ایماندار افسر کو یہ لگنے لگتا ہے کہ اصول پر قائم رہنا جرم بن گیا ہے۔ سول سرونٹس کی زندگی بظاہر پُر وقار نظر آتی ہے، مگر اندر سے اکثر وہ شدید اکیلے ہوتے ہیں۔ ان کے اردگرد ماتحت عملہ، فائلوں کا ڈھیر اور پروٹوکول ضرور ہوتا ہے۔ مگر احساسات بانٹنے والا کوئی نہیں۔

"افسر کے کمرے میں جتنی کرسیاں ہیں، اتنے چہرے بیٹھتے ہیں، مگر کوئی سننے والا نہیں ہوتا"۔

یہ تنہائی رفتہ رفتہ ڈپریشن، بے بسی اور خود سے نفرت میں بدل جاتی ہے اور جب کوئی شخص اس کیفیت میں پہنچ جائے کہ اسے لگے کہ کوئی راستہ نہیں بچا۔ تو خودکشی کا خیال ذہن پر قابض ہو جاتا ہے۔

ہم اکثر جسمانی بیماری کو سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ مگر ذہنی بیماری کو "کمزوری" سمجھتے ہیں۔ یہی سب سے خطرناک غلطی ہے۔ سول سرونٹس میں ڈپریشن، انزائٹی اور برن آؤٹ (burnout) کے کیسز تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔

"یہ لوگ نظام کے پہیے چلاتے ہیں، مگر اپنے اندر کے زخم کسی کو نہیں دکھاتے"۔

بدقسمتی سے، ہمارے اداروں میں کاؤنسلنگ، سپورٹ گروپس یا mental health programs کا فقدان ہے۔ اگر کوئی مدد لینا بھی چاہے تو اسے بدنامی یا کیریئر کے نقصان کا خوف ہوتا ہے۔ اکثر افسروں پر بدعنوانی یا نااہلی کے الزامات لگ جاتے ہیں، بعض اوقات بے بنیاد۔ انکوائری، میڈیا ٹرائل اور سوشل میڈیا پر تنقید انہیں مکمل طور پر نفسیاتی طور پر مفلوج کر دیتی ہے۔

"عزت انسان کا سب سے بڑا سرمایہ ہے، جب وہ چھن جائے تو زندگی بے معنی لگتی ہے"۔

ایسے حالات میں اگر کوئی سپورٹ سسٹم نہ ہو، تو وہ شخص مایوسی کی آخری حد پر پہنچ جاتا ہے۔ بدقسمتی سے، ہمارے انتظامی نظام میں انسان نہیں بلکہ عہدہ اہم ہوتا ہے۔ جب کوئی افسر مشکلات میں ہوتا ہے تو اس کا ساتھی اکثر خاموش رہتا ہے۔ شاید ڈر کے مارے، یا اس لیے کہ "یہ سسٹم کا معاملہ ہے"۔

"یہاں صرف فائلیں سنتی ہیں، انسان نہیں"۔

اگر ادارے اپنے ملازمین کے لیے confidential counselling units، peer support networks، یا stress management workshops قائم کریں۔ تو نہ صرف زندگی بچائی جا سکتی ہے بلکہ نظام میں ہمدردی بھی واپس لائی جا سکتی ہے۔ سول سرونٹس کو ہم روبوٹ سمجھنے لگے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ بھی احساسات رکھنے والے انسان ہیں۔ وہ بھی گھر سے نکلتے وقت مسکراتے ہیں، مگر اندر خوف اور تھکن لیے ہوتے ہیں۔

"خودکشی کمزوری نہیں، ایک چیخ ہے، جو دیر سے سنی گئی"۔

اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اس چیخ کو سنیں۔ ادارے، حکومتیں اور معاشرہ سب کو مل کر ایسا ماحول بنانا ہوگا جہاں ایمانداری سزا نہیں، ذہنی صحت کمزوری نہیں اور مدد مانگنا شرم کی بات نہیں۔ اگر ہم نے ان کی خاموشی نہ سنی تو۔ کل جب کسی دفتر میں کسی فائل کے نیچے لکھا ہوگا "افسر انتقال کر گیا"۔

تو یاد رکھیے گا، شاید وہ فائل نہیں، ایک چیخ تھی جو ہم نے وقت پر نہیں سنی۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan