Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Komal Shahzadi
  4. Doctor Aur Awami Etemad, Mazi Ki Maseehai Se Mojooda Haqiqat Tak

Doctor Aur Awami Etemad, Mazi Ki Maseehai Se Mojooda Haqiqat Tak

ڈاکٹر اور عوامی اعتماد، ماضی کی مسیحائی سے موجودہ حقیقت تک

ڈاکٹر کا پیشہ ہمیشہ سے معاشرتی عزت، وقار اور خدمت کے جذبے کی علامت سمجھا جاتا رہا ہے۔ ماضی میں جب کسی گاؤں یا شہر میں ڈاکٹر کا نام لیا جاتا تو آنکھوں میں ایک خاص احترام جھلکنے لگتا۔ لوگ اسے محض علاج کرنے والا نہیں بلکہ مسیحا کہتے تھے، کیونکہ اُس کا مقصد پیسہ نہیں بلکہ خدمت ہوتا تھا۔ وہ مریض کے چہرے کی پیلاہٹ سے بیماری پہچان لیتا، ہاتھ کے لمس سے بخار کی شدت ناپ لیتا اور دو جملوں میں مریض کے دل کو اطمینان بخش دیتا۔

لیکن وقت کے ساتھ حالات بدلے، معاشی دباؤ بڑھا، طبّی تعلیم کا ڈھانچہ بدل گیا اور ایک ایسا دور آیا جب ڈاکٹر اور مریض کے درمیان موجود بھروسے کی دیوار میں دراڑیں پڑنے لگیں۔ آج صورتحال یہ ہے کہ عوام کا اعتماد یکساں نہیں رہا، کہیں یہ اعتماد ابھی بھی قائم ہے، کہیں یہ بری طرح مجروح ہو چکا ہے۔

آج کا مریض اکثر یہ شکایت کرتا ہے کہ علاج ایک کاروبار بن گیا ہے۔ مہنگی فیس، غیر ضروری ٹیسٹ، مخصوص کمپنی کی دوائیں اور اسپتال کے مہنگے پیکجز نے مریض کے ذہن میں سوال پیدا کر دیے ہیں: کیا ڈاکٹر واقعی میری بیماری کا علاج کر رہا ہے یا اپنی کمائی کا ہدف پورا کر رہا ہے؟ اس پر ایک فلاسفر کا قول ذہن میں آتا ہے:

"People dont care how much you know until they know how much you care. "

سرکاری اسپتالوں میں صورت حال مختلف مگر مسائل وہاں بھی موجود ہیں۔ ایک ہی ڈاکٹر دن میں سیکڑوں مریض دیکھتا ہے، وقت کی کمی اور سہولتوں کی قلت اُسے مجبور کرتی ہے کہ چند لمحوں میں مریض کو دیکھ کر آگے بڑھ جائے۔ پھر وہی ڈاکٹر شام میں اپنی پرائیویٹ کلینک میں آدھا گھنٹہ ایک مریض کو دیتا ہے، یہ تضاد عوامی ذہن میں شکوک پیدا کرتا ہے۔

اس سب کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ آج بھی ہزاروں ڈاکٹر ایسے ہیں جو اپنی پیشہ ورانہ اخلاقیات کو کسی قیمت پر بیچنے کو تیار نہیں۔ کوئی گاؤں کے پرائمری ہیلتھ یونٹ میں انتہائی کم تنخواہ پر کام کر رہا ہے، کوئی فلاحی اسپتال میں مفت آپریشن کر رہا ہے، کوئی دور دراز پہاڑی علاقے میں ویکسین لے کر پیدل پہنچتا ہے۔ مہاتما گاندھی نے لکھا تھا:

"The best way to find yourself is to lose yourself in the service of others. "

یہ ڈاکٹر خاموشی سے خدمت کرتے ہیں، انہیں میڈیا کی روشنی یا شہرت کی ضرورت نہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو عوامی اعتماد کی آخری قندیلیں روشن رکھے ہوئے ہیں۔ ان کی موجودگی یہ یاد دلاتی ہے کہ مسیحائی کا جذبہ ابھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوا۔

سوشل میڈیا اور نیوز چینلز کے اس دور میں ایک چھوٹا سا واقعہ لمحوں میں ملک بھر میں پھیل جاتا ہے۔ کسی ڈاکٹر کی غفلت یا بدانتظامی کی ویڈیو وائرل ہو جائے تو پوری برادری پر انگلیاں اٹھنے لگتی ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ کئی واقعات واقعی سنگین غلطیوں کا نتیجہ ہوتے ہیں، مگر اکثر اوقات معلومات ادھوری یا یک طرفہ ہوتی ہیں۔

میڈیا کو یہ ذمہ داری نبھانی ہوگی کہ جہاں غلطی ہو وہاں تنقید ضرور کرے مگر ساتھ ساتھ مثبت مثالوں کو بھی اجاگر کرے۔ عوام کو یہ دکھانا ضروری ہے کہ ہر ڈاکٹر لالچی یا غافل نہیں، بلکہ بہت سے ایسے ہیں جو اپنے پیشے کا حق ادا کر رہے ہیں۔

پاکستانی عوام عمومی طور پر ڈاکٹر سے غیر معمولی توقعات رکھتے ہیں۔ مریض یا اس کے اہل خانہ یہ مان کر آتے ہیں کہ علاج کے بعد شفا یقینی ہے، مگر طب کا فن کبھی بھی صد فیصد گارنٹی نہیں دیتا۔ جب نتیجہ توقع کے مطابق نہ ہو تو مایوسی اکثر غصے میں بدل جاتی ہے۔ یہی جذباتی ردعمل بعض اوقات ڈاکٹر پر بے جا الزام تراشی میں ڈھل جاتا ہے۔

اعتماد ایک دو طرفہ عمل ہے، جیسے ڈاکٹر کو ایمانداری اور ہمدردی دکھانی چاہیے، ویسے ہی مریض کو بھی حقیقت پسندی اور صبر کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔

عوامی اعتماد کو بحال کرنے کے لیے چند اقدامات ناگزیر ہیں:

1۔ میڈیکل ایجوکیشن میں اخلاقی تربیت کو عملی بنیاد پر شامل کیا جائے، محض کتابی نصاب میں نہیں۔

2۔ مریض-ڈاکٹر مکالمے کو بہتر بنانے کے لیے کمیونیکیشن اسکلز کی ٹریننگ دی جائے۔

3۔ غیر ضروری ٹیسٹ اور دوائیوں کے خلاف سخت پالیسی بنائی جائے اور خلاف ورزی پر جرمانے ہوں۔

4۔ حکومتی نگرانی سرکاری اور نجی دونوں اسپتالوں میں یکساں ہو۔

5۔ میڈیا میں مثبت مثالوں کو اجاگر کرنے کی مہم چلائی جائے تاکہ عوام کو امید اور اعتماد کا پیغام ملے۔

ڈاکٹر کا پیشہ صرف روزگار کا ذریعہ نہیں، یہ انسانیت کی خدمت کا مقدس عہد ہے۔ اگر اس عہد کو خلوص اور ایمانداری سے نبھایا جائے تو نہ صرف عوامی اعتماد بحال ہوگا بلکہ آنے والی نسلیں بھی ڈاکٹر کو مسیحا کہنے میں فخر محسوس کریں گی۔

آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سب، ڈاکٹر، مریض، میڈیا اور حکومت، اپنا اپنا کردار سنجیدگی سے ادا کریں۔ تب ہی وہ دن واپس آسکے گا جب ڈاکٹر کا نام سن کر مریض کے چہرے پر اطمینان اور دل میں شکرگزاری کی لہر دوڑ جایا کرتی تھی۔

Check Also

Youtube Automation, Be Rozgar Nojawano Ka Badalta Mustaqbil

By Syed Badar Saeed