Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Komal Shahzadi
  4. Chup Ki Qabren Aur Ghairat Ke Kafan

Chup Ki Qabren Aur Ghairat Ke Kafan

چپ کی قبریں اور غیرت کے کفن

جینڈر وائلنس، ایک اجتماعی قبر کی داستان "پاکستان میں عورت ہونا، اکثر اوقات، ایک ایسے جرم کے مترادف ہوتا جا رہا ہے جس کی سزا نہ عدالت دیتی ہے نہ آئین، بلکہ معاشرہ خود اپنے ہاتھوں سے سناتا ہے۔ ہم اس خطے میں سانس لے رہے ہیں جہاں عورت کو محبت، رائے، مرضی، خواہش اور وجود کے ہر اعلان کی قیمت اپنی جان سے چکانی پڑتی ہے۔ پچھلے سال کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 500 سے زائد عورتیں غیرت کے نام پر قتل ہوئیں۔

یہ کوئی نئی خبر نہیں اور شاید یہی اس خبر کا سب سے ہولناک پہلو ہے: یہ معمول بن چکا ہے۔ ہم وہ معاشرہ ہیں جہاں عورت اگر خاموش رہے تو "نیک"، بولے تو "بے حیا"۔

ہنسے تو "بدکردار"۔

تعلیم حاصل کرے تو "فیشن زدہ"۔

اور اگر اپنی مرضی کی شادی کرے تو "غیرت کا جنازہ" اور پھر ہوتا ہے ایک اور قتل۔ کبھی بھائی کے ہاتھوں، کبھی باپ کے حکم سے، کبھی شوہر کی غیرت سے۔

اور کبھی محلے والوں کی "روایت" کے کہنے پر۔ غیرت اصل میں مرد کی خودساختہ انا کا دوسرا نام ہے، وہ انا جو عورت کے جسم، سوچ اور وجود پر قبضہ چاہتی ہے۔

وہ مرد جو بیٹی کو مار دیتا ہے، بیوی کو جلا دیتا ہے، بہن کو دفن کر دیتا ہے۔

اسی "غیرت" کے نام پر۔

لیکن اپنے کسی جرم پر نہ شرمندہ ہوتا ہے نہ معذرت خواہ۔ یہ کیسی غیرت ہے جو صرف عورت سے جڑی ہے؟ کیا مرد کی بے وفائی، جھوٹ، ظلم، یا بے حیائی غیرت کے دائرے سے باہر ہے؟ نہیں، یہ غیرت دراصل عورت کو خاموش رکھنے کا آلہ ہے۔

ایک ایسا آلہ جسے نسل در نسل مذہب، رسم، رواج اور "معاشرتی روایات" کی چادروں میں لپیٹ کر پاک بنا دیا گیا ہے۔

پاکستان میں 2016 میں Anti-Honour Killing Bill منظور ہوا۔ خصوصی عدالتیں بھی قائم ہوئیں، لیکن سوال یہ ہے کہ انصاف کہاں ہے؟ اکثر کیسز میں خاندان ہی صلح کر لیتا ہے، قاتل کو ماں یا باپ معاف کر دیتا ہے۔

اور عدالت سر جھکا لیتی ہے۔ انصاف یہاں ایک مذاق بن چکا ہے، جس میں عورت کی لاش، ثبوت نہیں، بس ایک کہانی ہے۔

جو جلد بھلا دی جاتی ہے۔

آج جب عورت نے سوشل میڈیا کو اظہار کا ذریعہ بنایا، تو وہاں بھی اسے خاموش کرنے کی کوشش کی گئی۔ کسی کی تصویر لیک کی گئی، کسی کو کردار کشی کا نشانہ بنایا گیا۔ سائبر ہراسمنٹ اب وہ ہتھیار ہے جو چپ کرانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ عورت آن لائن بھی آزاد نہیں، آف لائن بھی محفوظ نہیں۔

عورتوں کے خلاف تشدد کو بعض اوقات مذہبی حوالوں سے بھی "جواز" دیا جاتا ہے۔ جبکہ سچ یہ ہے کہ اسلام عورت کو عزت، تعلیم، میراث، تحفظ اور آزادی عطا کرتا ہے۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنی عورتوں کے لیے بہتر ہو"۔

لیکن ہم نے مذہب کو صرف اتنا پڑھا جتنا ہمارے تعصبات کو تقویت دے۔

ہم نے آیات کو اپنے مفاد کی عینک سے دیکھا اور حدیث کو اپنے زخموں کا مرہم بنانے کے بجائے دوسروں کو زخم دینے کا ذریعہ بنایا۔ یہ سب لکھنا دل کو دہلا دیتا ہے، مگر امید کی شمعیں اب بھی جل رہی ہیں:

عورت مارچ کی آوازیں۔

لڑکیوں کے اسکول۔

Digital Rights Foundation جیسے ادارے۔

بلوچستان، خیبرپختونخوا اور اندرونِ سندھ کی وہ بے باک بچیاں۔

جو اب ڈرنے کے بجائے بولنے کو تیار ہیں۔

حکومت، عدلیہ، علما، والدین، اساتذہ، صحافی۔

سب کو اس جنگ میں شامل ہونا ہوگا۔

جب تک عورت محفوظ نہیں۔

خاندان محفوظ نہیں۔

معاشرہ محفوظ نہیں۔

اور ریاست مضبوط نہیں۔

کب تک عورت قبر بنے گی؟

کب تک غیرت کے نام پر بے غیرتی ہوگی؟

کب تک قانون محض بیانات میں زندہ رہے گا؟

کب تک ہم عورت کے وجود کو جرم سمجھتے رہیں گے؟

شاید جواب بہت دور نہ ہو۔

اگر ہم خاموشی کا کفن چاک کر دیں۔

اور عورت کو صرف رشتہ نہ۔

انسان تسلیم کر لیں۔

یہ صرف لاشیں نہیں ہوتیں، یہ وہ سوال ہوتے ہیں جو کبھی عدالتوں میں پیش نہیں کیے جاتے۔ یہ صرف قتل نہیں ہوتا، یہ وہ خامشی ہوتی ہے جو نسلوں کی سانسیں روک دیتی ہے۔ پاکستان میں جب بھی کسی لڑکی کو "عزت" کے نام پر قتل کیا جاتا ہے، تو اصل میں معاشرے کی بے حسی زندہ ہو جاتی ہے۔ ہر گلی، ہر شہر، ہر گھر میں کوئی نہ کوئی ایسی لڑکی ہے جس کے خواب اس کے باپ، بھائی یا شوہر کی جھوٹی غیرت کے نیچے دفن ہیں۔ ہماری سرزمین پر غیرت کے نام پر قتل کا عمل اب ایک "معاشرتی رسم" کی شکل اختیار کر چکا ہے۔

2024 کی رپورٹ کے مطابق 500 سے زائد خواتین غیرت کے نام پر ماری گئیں اور یہ صرف وہ اعداد ہیں جو میڈیا تک پہنچ سکے۔ سچ یہ ہے کہ ہزاروں زندگیاں صرف اس لیے دفن کر دی جاتی ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے ہونے کا اعلان کیا۔ کبھی وہ محبت کرنے کی غلطی کرتی ہے، کبھی تعلیم حاصل کرنے کی خواہش، کبھی سوشل میڈیا پر تصویر لگانے کی "جرأت"۔۔ ہم اس معاشرے میں رہتے ہیں جہاں عورت اگر چپ رہے تو اچھی، بولے تو بدنام۔ وہ اگر خود کو بچائے تو بے حیا اور اگر برداشت کرے تو صابرہ۔

"غیرت" ایک ایسا لفظ ہے جو قتل کا لائسنس بن چکا ہے۔ مگر کیسی غیرت جو صرف عورت کے کردار سے جڑی ہو؟

کیوں نہیں کوئی مرد قتل ہوتا کہ اس نے عزت کو داغدار کیا؟ کیوں جرم صرف عورت کے حصے میں آتا ہے؟ یہ غیرت اصل میں طاقت ہے، عورت کو دبانے، مارنے اور خاموش رکھنے کی اور یہ طاقت قانونی تحفظ سے نہیں، سماجی خاموشی سے حاصل ہوتی ہے۔

جب عدالتیں ناکام ہوتی ہیں، جب پولیس کمزور پڑتی ہے، جب میڈیا بھی سنسنی کے بعد خاموش ہو جاتا ہے، تو مجرم مزید مضبوط ہو جاتا ہے۔

پاکستان میں کئی قوانین موجود ہیں:

2016 کا Anti-Honour Killing Bill

خواتین کی عدالتیں

تحفظِ نسواں ایکٹس

لیکن قانون جب عملدرآمد سے محروم ہو جائے تو وہ صرف کاغذی ہمدردی بن کر رہ جاتا ہے۔ پولیس اکثر "خاندانی معاملہ" کہہ کر چپ ہو جاتی ہے، عدالتیں شواہد کی کمی پر کیس بند کر دیتی ہیں اور خاندان جرگوں میں "صلح" کر لیتے ہیں۔

مگر اس صلح کے بدلے کیا جاتا ہے؟ ایک لڑکی کی لاش۔

اب عورت صرف گھر میں نہیں، آن لائن بھی شکار ہو رہی ہے۔ ڈیجیٹل وائلنس، جہاں اسے بلیک میل کیا جاتا ہے، تصاویر لیک کی جاتی ہیں، بدنامی کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔

کبھی کبھی اس کا صرف TikTok اکاؤنٹ بھی موت کی وجہ بن جاتا ہے۔ ہم ایک ایسے وقت میں جی رہے ہیں جہاں عورت کے لیے نہ زمین محفوظ ہے، نہ اسکرین۔

یہ سوال اہم ہے: جینڈر وائلنس آخر کب تک؟

اور اس کا جواب صرف احتجاج سے نہیں، تبدیلی کے مجموعی عزم سے آئے گا۔

تعلیم کا فروغ۔

عورتوں کے لیے قانونی مدد۔

مردوں کی تربیت۔

مذہبی و ثقافتی رہنماؤں کا مثبت کردار۔

اور سب سے اہم: خاموشی توڑنا۔

جب تک ہم عورت کو اس کی مکمل انسانیت کے ساتھ تسلیم نہیں کریں گے، تب تک ہر غیرت کے کفن میں ہماری ہی تہذیب دفن ہوتی رہے گی۔ آئیے وہ وقت لائیں، جب عورت کا نام سنتے ہی خوف نہیں، فخر محسوس ہو۔ جب عورت صرف زندہ نہ ہو، زندہ لکھی بھی جائے۔

Check Also

Pablo Picasso, Rangon Ka Jadugar

By Asif Masood