Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Komal Shahzadi
  4. Behta Hua KPK, Afaat Ki Kahani Aur Hamari Ghaflat

Behta Hua KPK, Afaat Ki Kahani Aur Hamari Ghaflat

بہتا ہوا کے پی کے، آفات کی کہانی اور ہماری غفلت

خیبر پختونخوا، پاکستان کا وہ صوبہ جس کے نام میں ہی خوبصورتی، جفاکشی اور بہادری جھلکتی ہے۔ بلند و بالا پہاڑ، برف پوش چوٹیوں سے اترتے ندی نالے، سرسبز وادیاں اور شور مچاتے دریا، یہ سب مل کر اسے جنت نظیر بنا دیتے ہیں۔ مگر اس جنت کے باسی اکثر اپنے گھروں، کھیتوں اور خوابوں کو بہتے پانیوں اور لرزتی زمین کی نذر کرتے ہیں۔ یہ صوبہ کبھی زلزلے کی تھرتھراہٹ میں لرزتا ہے، کبھی برفانی تودوں کے نیچے دب جاتا ہے، کبھی لینڈ سلائیڈنگ کی لپیٹ میں آتا ہے اور اکثر و بیشتر سیلابوں میں بہہ جاتا ہے۔ اسی لیے اسے "بہتا ہوا کے پی کے" کہنا کوئی مبالغہ نہیں۔

کے پی کے کا جغرافیہ اتنا حسین ہے جتنا خطرناک۔ ہمالیہ اور ہندوکش کے پہاڑی سلسلے اس صوبے کو گلے لگائے کھڑے ہیں، مگر یہی پہاڑ زلزلوں کے خطرات کو بھی بڑھاتے ہیں۔ ہزارہ ڈویژن، سوات، دیر اور چترال کے علاقے فالٹ لائن پر واقع ہیں، جہاں زمین کا ایک ہلکا سا جھٹکا پورے گاؤں کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیتا ہے۔ 8 اکتوبر 2005 کا زلزلہ اس کی بدترین مثال ہے جب مانسہرہ اور بالاکوٹ جیسے علاقے ملبے کا ڈھیر بن گئے۔

پھر بات آتی ہے دریاؤں کی۔ دریائے کابل، دریائے سوات، دریائے پنجکوڑہ اور کوہستان کے تیز دھارے ہر سال بارشوں اور گلیشیئر کے پگھلنے سے بپھر جاتے ہیں۔ 2010 کا سیلاب یاد کریں، جب پانی کی دیواروں نے نہ صرف بستیاں بہا دیں بلکہ پورے صوبے کی معیشت کو بھی بہا کر لے گئے۔ کھیت اجڑ گئے، سڑکیں ٹوٹ گئیں، پل ڈھے گئے اور لاکھوں لوگ بے گھر ہو گئے۔ آج پندرہ سال گزرنے کے بعد بھی وہ زخم تازہ ہیں۔

یہ درست ہے کہ قدرتی آفات کو روکا نہیں جا سکتا، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی یہ سب کچھ صرف قدرت کا غضب ہے؟ یا اس میں ہماری اپنی غفلت بھی شامل ہے؟

جنگلات کی بے دریغ کٹائی نے بارش کے پانی کو قابو کرنے کی صلاحیت ختم کر دی۔ دریاؤں کے کناروں پر غیر قانونی تعمیرات نے قدرتی راستوں کو روک دیا۔ زمین پر بکھرا کچرا اور غیر منظم نکاسی آب نے ندی نالوں کو نالہٴ غصہ بنا دیا۔ ناقص بلڈنگ کوڈ اور غیر معیاری تعمیرات نے زلزلوں میں تباہی بڑھا دی۔ یوں لگتا ہے جیسے ہم خود اپنے ہاتھوں سے صوبے کو بہا دینے کے انتظامات کر رہے ہیں۔

کے پی کے کے عوام کی زندگی آفات کے گرد گھومتی ہے۔ چترال میں برفانی تودہ گرنے سے کئی گاؤں مٹ جاتے ہیں۔ دیر اور کوہستان میں لینڈ سلائیڈنگ سے سڑکیں بند ہو جاتی ہیں، یوں بستیوں کا رابطہ دنیا سے کٹ جاتا ہے۔ جنوبی اضلاع، مثلاً ڈی آئی خان اور ٹانک، خشک سالی کا شکار ہیں جہاں پانی کی بوند بوند ترساتی ہے۔ شمالی اضلاع میں لوگ پانی کی طغیانی سے ڈرتے ہیں اور جنوبی حصے میں پیاس سے مرتے ہیں۔ یہ کیسا المیہ ہے کہ ایک ہی صوبے میں کبھی پانی کی زیادتی اور کبھی قلت جان لے لیتی ہے۔

قدرتی آفات کو روکنا ممکن نہیں، مگر ان کے اثرات کو کم ضرور کیا جا سکتا ہے۔ دنیا کے کئی ممالک نے یہ ثابت کیا ہے۔ جاپان ہر سال زلزلے برداشت کرتا ہے مگر وہاں جانی نقصان کم ہوتا ہے کیونکہ وہاں تعمیرات مضبوط ہیں، عوام تربیت یافتہ ہیں اور حکومت بروقت حرکت میں آتی ہے۔ بنگلہ دیش طوفانوں کی زد میں رہتا ہے مگر اس نے ابتدائی انتباہی نظام اور کمیونٹی ڈرلز سے ہزاروں زندگیاں بچائی ہیں۔

کے پی کے میں بھی ادارے موجود ہیں: PDMA، ریسکیو 1122، ضلعی ڈیزاسٹر مینجمنٹ یونٹس۔ مگر اکثر یہ ادارے آفات کے بعد نظر آتے ہیں، پہلے نہیں۔ ہم اب بھی ریلیف کو سب کچھ سمجھتے ہیں، حالانکہ اصل حل ریلیف میں نہیں، ریذیلینس (مزاحمت پیدا کرنے) میں ہے۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ "بہتا ہوا کے پی کے" ایک دن "محفوظ کے پی کے" بن جائے تو ہمیں چند بنیادی اقدامات کرنے ہوں گے:

دریاؤں کے کناروں پر تعمیرات پر سخت پابندی۔

جنگلات کی بحالی اور نئے درخت لگانا۔

زلزلہ مزاحم تعمیرات کو لازمی قرار دینا۔

ہر ضلع میں ابتدائی انتباہی نظام کو فعال کرنا۔

اسکولوں اور کمیونٹی سطح پر باقاعدہ ڈرلز اور تربیت۔

بجٹ میں مستقل ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے لیے رقم مختص کرنا۔

خیبر پختونخوا کا یہ بہتا ہوا چہرہ ہمیں چیخ چیخ کر بتا رہا ہے کہ اب وقت آگیا ہے جاگنے کا۔ اگر ہم آج بھی نہ جاگے تو کل پھر پانی ہمارے گھروں کو بہا لے جائے گا، زمین لرز کر ہماری چھتوں کو گرا دے گی اور برفانی تودے ہمارے بچوں کو دبائیں گے۔ آفات کو قسمت کا لکھا کہہ کر قبول کرنا آسان ہے، مگر اصل ایمان اور عقل یہی ہے کہ ہم اپنی ذمہ داری پوری کریں۔

کے پی کے کو بچانا ممکن ہے، مگر شرط یہ ہے کہ ہم ریلیف کے بجائے پائیدار اقدامات پر یقین کریں۔ وگرنہ یہ صوبہ ہمیشہ "بہتا ہوا کے پی کے" کہلائے گا۔

Check Also

Pablo Picasso, Rangon Ka Jadugar

By Asif Masood