Ye Thay Musalman
یہ تھے مسلمان
سیالکوٹ میں چرچ سے ملحقہ CTI گراؤنڈ میں PTI نے جلسہ کا انعقاد کیا۔ حیرت ہے کہ خان صاحب کو دنیا کی تاریخ کا علم ہے۔ اسلام فوبیا کے متعلق وہ بڑی شاندار تقریر کر لیتے ہیں،ویسے تو وہ تقریباً ہر تقریر ہی شا ندار کرتے ہیں۔تقریر کرنے میں کچھ خرچ نہیں ہوتا صرف زبانی کلامی گفتگو اور اپنے آپ کو عظمتوں کی بلندیوں پر پہنچا دو اور جہاں بولنے کی ضرورت ہو مثلاً کشمیر کے مسئلہ پر وہاں چپ سا دھ لو۔ اُلٹا انڈیا کی تعریفیں کرتے رہو کہ ہندو بڑے خود دار ہیں۔جنھوں نے زبردستی کشمیر پر قبضہ کیا ہوا ہے وہ خود دار ہیں؟ ہندو تو اپنا مطلب نکلوانے کے لو پاؤں تک پڑ جاتے ہیں۔ آپ نے بغیر کسی شرط کے کلبھو شن کو ان کے خوالے کر دیا!
اب سوال ہےCTI گراؤنڈ میں بغیر اجازت کے جلسے کے انعقاد کرنے کا! وہ گراؤنڈ جو 118 برس سے مذہبی رسومات کے لئے مختص ہے،جہاں کبھی کوئی سیاسی اجتماع نہیں ہوا!
خان صا حب کیا چا رہے تھے؟ مسلمان اور عیسانی کمیونٹی کے مابین فساد کروانا!یا حکومت کے لئے مشکلات میں اضافہ کرنا! نیت میں گڑ بڑ ہے!
خان صاحب کا علم خلافتِ راشدہ کے متعلق بلندیوں کو چھو رہا ہے،لیکن ان کو شاید یہ معلوم نہیں کہ خلافتِ راشدہ کے دور میں پابندی عہد کی ایسی ایسی مثالیں ملتی ہیں جنھیں دیکھ کر آج کا انسان محوِ حیرت ہو جاتا ہے۔
حضرت عبادہ بن صامت ایک دفعہ دمشق کے ایک گاؤں سے گزرے۔ رفیقِ سفر سے کہا کہ گاؤں کے کسی درخت سے ایک مسواک کاٹ لائیں،وہ اٹھے ہی تھے کہ آپ نے انہیں یہ کہہ کر روک دیا کہ ان کے ساتھ جو معاہدہ ہوا تھا اس میں اس قسم کی کوئی بات طے نہیں ہوئی تھی،اس لئے ہمیں یہاں سے مسواک نہیں لینی چاہیے۔
اسی طرح حضرت درداؓ کا جب کسی اہلِ زمہ کے گاؤں پر سے گزر ہوتا اور آپ وہاں پانی پیتے یا جانوروں کو چرنے کے لئے چھوڑتے تو روانگی کے وقت ایک ایک پائی کا حساب کر کے قیمت ادا کر دیتے اور اس میں یہ کہہ کر کچھ زاہد بھی شامل کر دیتے کہ ہم ان کے درختوں کے سائے تلے بھی تو بیٹھے تھے اس آسائش کا بھی معاوضہ دینا چاہیے۔ یہ مت بھولیں کہ یہ مسلمانوں کے مفتوح علاقے تھے اور وہاں کے باشندہ ان کے محکوم!
یہ تھے مسلمان!
خان صاحب آپ اپنے گریبان میں جھانکیں!