Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Kiran Arzoo Nadeem
  4. Saaf Chali, Shafaf Chali

Saaf Chali, Shafaf Chali

صاف چلی، شفاف چلی

تحریکِ انصاف کا انصاف اس کی شفافیت سب ہوا ہو گئے۔ ان کا سب سے بڑا چینل اے، آر، وائے بند ہو گیا ہے۔ جس سے تحریکِ انصاف کی کمر ٹوٹ گئی ہے۔ کاش جو نعرہ پکڑ کر خان صاحب نے تحریکِ انصاف کا آغاز کیا تھا، اس پر کار بند رہتے، کیونکہ ان کو چاروں طرف سے مدد ملتی رہتی، جتنے مخلص ساتھی خان صاحب کو ملے لیکن خان صاحب کا ایجنڈا کبھی بھی شفافیت نہیں تھا۔

ان کا ایجنڈا صرف پیسہ کمانا تھا، وہ جیسے بھی کمایا جاتا، غلط یا ٹھیک، جو شخص خیرات کے پیسوں کو استعمال کر سکتا ہے چاہے پارٹی پر چاہے بنی گالہ کا خرچ چلانے کے لئے، اس کو پاکستان کی کیا پرواہ، خان صاحب نے اپنے پر خلوص ساتھیوں کو اپنے پاوں تلے روند ڑالا، ان کی پارٹی میں مشاورت کی گنجائش نہیں تھی۔ خان صاحب نے اپنے ارد گرد دو نمبر لوگ اکٹھے کر لئے۔

ریاستِ مدینہ اور نبی اکرمﷺ کا نام لینے والے خان صاحب کو غزوہِ بدر کا ایک واقعہ بتاتی ہوں، یاد رہے کہ اس وقت کفار کی ہزار سپاہیوں کی جمعیت، سو سواروں کا رسالہ رسد کا یہ انتظام کے دس دس اونٹ روزانہ زبخ ہوتے تھے۔ اس کے مقابلہ میں حضورﷺ کے جان نثاروں کی کل جماعت 313 اور بے سرو سامانی کا یہ عالم کے کل دو گھوڑے تھے۔ ایک طرف کفار ڈیرے ڈال کر بیٹھ گئے اور دوسری طرف حضورﷺ فرو کش تھے۔

حضرت حباب بن منزر ایک صحابی تھے۔ انھوں نے خدمتِ اقدس میں عرض کیا کہ میدان کا یہ انتحاب وحی کی رو سے ہوا ہے یا حضورﷺ نے اپنی رائے سے ایسا کیا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ یہ وحی کا حکم نہیں میں نے خود ہی اندازہ کیا ہے کہ یہ مقام ہمارے لئے مفید رہے گا، اس پر حضرت حباب نے کہا کہ پھر اس مقام سے فلاں مقام زیادہ مناسب ہے، ہمیں وہاں جا کر اترنا چاہیے۔

حضور نے معاملے کے ان پہلوؤں پر غور کیا، جنہیں حضرت حباب نے پیش کیا تھا، اور فرمایا کہ حباب کی رائے زیارہ صائب ہے۔ چنانچہ آپ نے اس پر عمل فرمایا رات کو بارش ہوئی تو موقع کے حسنِ انتحاب نے میدان کا نقشہ الٹ دیا۔ اب جو دیکھا تو بساطِ جنگ کا ہر گوشہ مجاہدین کے خق میں تھا۔ سورت الانفال کی آیت ۵-٦/٨ میں یُجادِلوُنکّ آیا، جدال اس قسم کی بحث کو کہتے ہیں جس میں دوسروں کی بات کو یونہی کاٹ نہ دیا جائے، بلکہ اسے اجازت ہو کہ وہ جو کچھ اور جس قدر کہنا چاہتا ہے کہے۔

یہ بحث اُمتیوں کی اپنے رسولﷺ کے ساتھ ہوتی تھی، غور فرمائییے کہ حضورﷺ نے اپنے متبعین کی حریتِ فکر اور آزادیٴ رائے کی کس قسم کی تربیت فرمائی تھی، اس کے مقابلہ میں آج کے حکمران اور دین کے علمبردار سب سے، اگر زرا سا اختلاف کیا جائے تو کفر کا فتویٰ صادر کر دیا جاتا ہے۔

پھر بھی ہم اپنے آپ کو سنتِ رسولﷺ کے پیرو کہتے ہیں دین کا نام لیتے نہیں تھکتے، خان صاحب کاش آپ اکبر ایس بابر کی بات سن لیتے تو آج خالات مختلف ہوتے، آپ کی پارٹی واقعی صاف اور شفاف ہوتی۔

Check Also

Kash Mamlat Yahan Tak Na Pohanchte

By Nusrat Javed