Rakh Ka Dher
راکھ کا ڈھیر
جب میں اپنی امی سے بچپن میں بحث کرتی تھی تو وہ آگے سے کہتی تھیں کہ "پا نا پڑی وخت نوں پھڑھی" یعنی ابھی تعلیم ذرا سی لی ہے اور مصیبت میں ڈال دیا ہے۔ بچوں پر ایک سٹیج یہ بھی آتی ہے جب وہ اپنے آپ کو عقلِ کل سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ یہ سٹیج آج کل خان صاحب پر آئی ہوئی ہے۔ علم کی کوئی حد نہیں ہوتی، انسان جتنا جانتا چلا جاتا ہے اس کو پتہ چلتا چلا جاتا ہے کہ وہ تو ابھی علم کی پہلی سیڑھی تک بھی نہیں پہنچا۔
لیکن جب انسان کا علم محدود ہو اور وہ اپنے آپ کو علم کی آخری سیڑھی پر سمجھ رہا ہو تو انگریزی کا محاورہ ہے "Little knowledge is dangerous"۔ وہی حال خان صاحب کا ہے جب وہ ہمیں معلومات کے زخیرے بہم پہنچا رہے ہوتے ہیں۔ ایک تو انہیں تمام دنیا سے تعلق رکھنے والے انسانوں کی نفسیات پتہ ہے۔ تاریخ کا علم آخری حدوں کو چھو رہا ہے اور دین پر تو انھوں نے پی ایچ ڈی کر رکھی ہے اور سیاست کی تو انہیں کلاسز لینی شروع کر دینی چاہیے۔
اپنی معلومات کے ذخیرہ میں سے انہوں نے ہمیں بتایا کہ میر جعفر وہ سپہ سالار تھا جس نے سراج الدولہ (جو کہ مغلوں کا حکمران تھا) کو انگریزوں کے ساتھ مل کر قتل کروایا اور میر صادق نے ٹیپو سلطان کو شہید کروایا۔ خان صاحب حقائق اس طرح بیان کرتے ہیں کہ لگتا ایسا ہے کہ تاریخ غلط ہے اور مؤرخ تاریخ لکھنے میں غلطی کر رہا ہے، خان صاحب کی معلومات درست ہیں۔
خان صاحب اپنے آپ کو ٹیپو سلطان اور سراج الدولہ دونوں سمجھ رہے ہیں پہلے ان کا اشارہ جنرل باجوہ کی طرف تھا پھر وہ یو ٹرن لے کر شہباز شریف کی طرف ہو گئے۔ جب انسان اپنے آپ کو عقلِ کل سمجھے تو وہ غلطی تسلیم کرنے کی بجائے یو ٹرن لینا زیادہ آسان سمجھتا ہے۔
آدمؑ نے اپنی غلطی تسلیم کی اور ربّ سے دعا کی۔
ربنا ظلمنا انفسنا وان لم تغفر لنا و ترحمنا لنکونن من الخاسرین-
اے ربّ! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم نقصان اُٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گئے-
جبکہ شیطان اپنی غلطیوں کا الزام دوسروں پر ڈالتا رہا۔
میں عمران خان کا انٹرویو دیکھ رہی تھی جو مہر بخاری نے 2013 کے الیکشن سے پہلے لیا تھا، اُس وقت کے عمران خان اور اس وقت کے خان صاحب میں زمین آسمان کا فرق پڑ چکا ہے۔ اس وقت انٹرویو کے دوران وہ آرام سے گھاس پر بیٹھ جاتے ہیں۔ اس وقت وہ واقعی سادہ سے انسان لگے۔ اب کے خان صاحب اور اس وقت کے عمران خان میں بہت فرق لگا اور یہ فرق محسوس کرتے ہوئے مجھے حقیتاََ بہت دکھ ہوا۔ ان کی خود سری کا یہ عالم ہے کہ وہ سرکاری B M W اپنے عہدہ سے ہٹنے کے باوجود واپس نہیں کر رہے۔ خان صاحب کی انا اور تکبر نے ان کی ساری صلاحیتوں کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا ہے۔