Lums University Aur Ali Garh College
لمز یو نیور سٹی اور علی گڑھ کالج
1857 کی جنگِ آزادی کے بعد مسلمانوں کی حالت بد سے بد تر ہوتی جا رہی تھی۔ کلکتہ، بمبئی اور مدارس میں جدید علوم کی یو نیورسٹیاں قائم ہوگئیں تھیں، جن میں ہندو جوق در جوق داخل ہو رہے تھے، لیکن مسلمان علماء کرام نے فتویٰ دے رکھا تھا کہ انگریزی پڑھنا حرام ہے، اس لئے مسلمان اسے شجرِ ممنوع سمجھ رہے تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بیس برسوں میں صرف بیس مسلمان گر یجو یٹس ہو سکے۔ جبکہ دوسری طرف ان یونیورسٹیوں سے نکلے ہوئے غیر مسلم، حکومت کی مشینری میں دخیل کار ہوتے جا رہے تھے اور مسلمانوں نے اپنے دروازے ہر تر قی کے لئے بند کر رکھے تھے۔
سر سید نے اس صورتِ حال کا گہری نظر سے جائزہ لیا اور 1863 میں جب وہ غازی پور میں تعینات تھے، سائنٹیفک ادارے کی بنیاد رکھی۔ اُس زمانے میں اپنا گھر اور اس کی ہر چیز بیچ کر یورپ کا سفر کیا یہ جاننے کے لئے کہ مسلمانوں کو کس طرح جدید علوم سے آراستہ کیا جائے، 23 مئی 1875 کو علی گڑھ کی بنیاد رکھی گئی اور جو بات سر سید کے ذہن میں تھی وہ یہ تھی کہ طلباء کی تر بیت پر بھی زور دیا جائے اور اس ادارے سے نکلے ہوئے طالب علموں نے پا کستان بننے میں اہم کر دار ادا کیا۔
حقیقتاََ 23 مئی والے دن پا کستان کے قیام کی پہلی اینٹ رکھی گئی اگر علی گڑھ نہ بنتا، سر سید نہ ہوتا تو آج نہ پا کستان ہوتا نہ لمز یو نیورسٹی نہ اس کے طلباء جو اپنے آپ کو ارسطو سمجھ کر تہذیب کے دائرے سے نکل کر بظاہر بڑے سچے سوالات کرنے کا شور و غل کر رہے تھے۔ لمز کا شمار مہنگے ترین تعلیمی ادارے میں ہوتا ہے لیکن اس تعلیم کا کیا فائدہ جو بچوں کی تر بیت ہی نہ کر سکے!
کڑوا سچ تو یہ ہے کہ ایک صدی گزرنے کے بعد بھی ہم علی گڑھ کے بعد کوئی ایسا تعلیمی ادارہ قائم نہ کر سکے جو نوجوانوں کی تربیت کر سکتا!
وزیراعظم لمز یونیورسٹی گئے اور وہاں بڑے ٹھنڈے دل سے طالب علموں کے سوالات سنے اور ان کے جواب دئے دوسری طرف ان نوجوانوں کا محبوب لیڈر تو صرف اپنی پسند کے صحافی بلا کر ہی پریس کانفرنس کیا کرتے تھے۔ سوشل میڈیا پر اس طرح کا شور مچایا جا رہا ہے کہ انہوں نے بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہے!
طالب علم کی حیثیت سے کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ اتنے بڑے ادارے نے انھیں کیا تربیت دی ہے؟ کیا اس سوال کا جواب دینے کی ہمت ہے ان میں؟ تربیت کسے کہتے ہیں خاص طور پر لمز یونیورسٹی کے پرنسپل کو بتانا چاہتی ہوں!
سر سید کے یہ جملے سننے کے قابل ہیں جب انھوں نے طباء سے خطاب میں کہا تھا: "یاد رکھو! سب سے سچا کلمہ لا الہٰ الا اللہ محمد رسول اللہ ﷺ ہے۔ اس پر یقین رکھنے کی بدولت ہماری قوم ہماری ہماری قوم ہے۔ اگر تم نے سب کچھ کیا اور اس پر یقین نہ کیا تو تم ہماری قوم نہ رہے پھر اگر تم آسمان کے ستارے بھی ہو گئے تو کیا؟ مجھے اُمید ہے کہ تم علم اور اسلام دونوں کے نمونے ہو گئے اور جبھی ہماری قوم کو حقیقی عزت نصیب ہوگی"۔
سرسید کے زیرِ تر بیت جو نوجوان اس کالج سے نکلے، ان کے دل میں قوم کی محبت اور اسلام کا درد کس حد تک تھا اور ڈسپلن کا کیا عالم تھا، اس کا انداہ ایک واقعہ سے لگائیے جسے صدقِ جدید (لکھنو) کے مدیر نے ان الفاظمیں بیان کیا ہے۔
"غالباََ 1898 کا ذکر ہے کہ سر سید کی وفات یا تو ہو چکی تھی یا عنقریب ہونے والی تھی۔ علی گڑھ کی شہرت کرکٹ کے میدان میں ہندوستان گیر ہو چکی تھی کہ ایک کرکٹ میچ سول سروس والوں کے مقابل نینی تال میں قرار پایا۔ میچ شروع ہوا، اتفاق سے جمعہ کا دن تھا اور سول سروس ٹیم کھیل رہی تھی اور علی گڑھ کھلا رہی تھی، علی گڑھ کے شہرِ آ فاق باولر اشفاق نے گیند پھیکنے کے لئے ہاتھ اُ ٹھایا کہ مسجد سے جمعہ کی آذان کی آ واز آئی اور اس کا اُٹھا ہوا ہاتھ نیچے گر گیا۔ اشفاق نے اتنا بھی نہ کیا کہ بولنگ پوری کرلیتا، سروس والے اس پابندی، احکام پر اش اش کر اُ ٹھے۔
اگر سر سید یہ کچھ نہ کرتا تو نہ محمد علی ہوتا نہ شوکت علی نہ اقبال ہوتا نہ جناح اور ہم آج ہندوستان میں شودروں کی سی زندگی بسر کر رہے ہوتے۔ سر سید ہی درحقیقت پا کستان کے معمارِ اول ہیں۔
یہ ہوتی ہے کسی بھی ادارے کی تر بیت کے نتائج۔ لا کھوں روپے فیس دینے کے باوجود کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس ادارے یا ان جیسے اداروں سے نکلے گئے طالب علم سوائے دولت جمع کرنے اور اس کو اپنی بہبود پر خرچ کرنے کے سوا اسلام اور پا کستان کی کیا خدمت انجام دے پائے ہیں!