Kon Aye Ga
کون آئے گا
میں ATM کے بایر کھڑی ہوئی تھی کہ وہاں ایک سرکاری پروٹوکول والی گاڑی آئی، جس گاڑی میں ایک آفیسر ٹائپ آدمی برآمد ہوا، جس کے ساتھ تین گارڑز تھے۔ ایک گارڑ نے ATM کا دروازہ کھولا دوسرا ATM کے باہر کھڑا رہا اور تیسرا گاڑی میں تھا اور اس کی شکل میں اور چال میں جو تکبر تھا وہ نا قابلِ بیان تھا۔ اس شخص کا سرکاری عہدہ کوئی بھی ہو، اس کی سیکیورٹی ان غریب عوام کے ٹیکسو ں کی کمائی سے مہیا کی گئی ہے۔
جن غریب عوام پر اپنی سر کاری گاڑی اور سییکیورٹی کا رعب ڑال رہا تھا۔ اس کے سر کاری گارڑ شکل و صورت میں اس سے بہت بہتر تھے، کیا پاکستان اس لئے بنا تھا کہ ہم پر سر کاری آفیسرز ' کبھی وزراء اپنے پروٹوکول کے ساتھ مسلط ہوتے رہے ہیں۔ آخر کب یہ سب کچھ ختم ہو گا؟ پاکستان کی خالت اس وقت تک نہیں بدل سکتی، جب تک اوپر کی سطح کا طبقہ چاہے سرکاری ملازم ہوں یا وزراء۔
چاہے وزیرِ اعظم 'چاہے ججیز ' چاہے آرمی آفیسرز، م سب کے سب عام آدمی کی سطح پر زندگی نہیں گزارتے، اور یہ نا ممکن نہیں ہے، اگر خان لیاقت علی خان جو ہندوستان میں چھ گاؤں کے مالک تھے، انھوں نے پاکستان آنے پر کچھ کلیم نہیں کیا تھا، اور پاکستان کا وزیرِ اعظم ہونے کے باوجود عام آدمی کی سطح پر زنرگی گزاری اور ہم ہیلی کاپٹر میں سیر کرنے والے خان صاحب کی ویڑیوز شیرز کر کے خوش ہوتے ہیں۔
کہ میاں جی کے ہوٹل میں حان صاحب پراٹھا اور چائے کہا رہے ہیں اور بتایا جا رہا کہ خان صاحب کس قدر سادہ ہیں۔ سادہ تو ہیں جو تحفہ میں دی گئی گڑھیاں تک بیچ ریتے ہیں۔ خان صاحب سادہ ہیں یا نہیں ' یہ تو مجھے نہیں پتہ لیکن عوام ضرور ساری ہے۔ جو توشہ خانہ تخائف کی بات ہو یا فارن فنڈنگ کیس ہو 'خان صاحب کا ہر عمل justify ہے اور ہم بیچارے خان صاحب کے خالی گھرکے پروٹوکول کو جو زمان پارک میں ہے۔
دیکھتے رہتے ہیں کبھی سرکاری سرکاری وزراء کے پروٹوکول کو، خان صاحب کو ہم شاید اسی لئے لائے تھے کہ یہ کلچر ختم ہونا تھا اور سب کو عام آدمی کی سطح پر زندگی گزادنا تھی۔ لیکن خان صاحب خلافتِ راشدہ کا زکر تواتر سے کرتے ہیں، لیکن عام سطح پر زندگی گزارنے کی بات انھوں نے کبھی نہیں کی پھر ہمارے ساتھ وہی ہوا، جو ہمیشہ ہوتا جلا آیا ہے۔
کبھی روٹی کپڑا اور مکان کے نعرہ کے ساتھ خوابوں کے تانے بانے بنتے رہتے ہیں، جو خواب اب بھی ختم نہیں ہوئے غریب تب بھی غریب تھا اور اب بھی غریب ہے۔ پروٹوکول تب بھی تھا اور اب بھی ہے، کچھ بھی نہیں بدلا، کون بدلے گا؟ امرائے قریش اس جدید تحریک اسلام کی شدید مخالفت کرتے تھے۔ اس مخالفت کی وجہ یہ تھی کہ یہ جدید تصورِ خیات اور نظامِ زندگی۔
ان کے قدیمی معتقدات اور نظامِ معاشرہ کو جڑ بنیاد سے اکھیڑ کر رکھ دیتا تھا، انھوں نے اس حقیقت کو " نوحہ ابو جہل در حرمِ کعبہ " کے عنوان سے جاوید نامہ میں بڑے دلکش انداز میں بیان کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ جدید نظامِ حیات (دینِ محمدی) کی روز افزاں ترقی سے گھبرا کر ابو جہل کعبہ میں گیا، غلافِ کعبہ کو تھاما اپنے معبودان۔ لات و منات وہبل کو نہایت عجز و الحاح سے پکارا۔
ان کے خضور نوحہ کناں ہوا کہ یہ وہ انقلاب ہے۔ جسے یہ نیا دین ہماری معاشرتی زندگی میں لانا چاہتا ہے اور جو تبدیلی یہ معاشرتی زندگی میں لانے۔ کا مدعی ہے، وہ اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے وہ طبقاتی امتیاز مٹانا چاہتا ہے اور عام انسانو ں میں اس قسم کی مساوارت پیدا کرنا چاہتا ہے۔ جس سے امیر اور غریب کا فرق ہی مٹ جائے یہ خالص مزدکیت (پارس کی کمیو نیزم)ہے جسے محمد نے سلمان فارسی سے سیکھ لیا ہے۔
آپ کو معلوم ہے کہ ہمارا وطن اسی نظریہ کی بناء پر وجود میں آیا تھا۔ سقوطِ ڑھاکہ کے وقت اندرا گاندھی نے پتہ ہے کیا کہا تھا وہی ابو جہل والی زہنیت کے یہ دراصل اس نظریہ کی شکست ہے، جو باطل پر مبنی تھا، کون آئے گا۔ جو اس نظریہ کو جو خق ہے لیکن واقعتاً، حق ثابت کرے گا؟