Jaranwala Ka Dil Kharash Waqia
جڑانوالہ کا دلخراش واقعہ
جڑانوالہ کا دلخراش واقعہ ہر انسان نا صرف مسیحی برادری بلکے تمام مسلمانوں کے لئے بھی بے حد دل دُکھا دینے والا واقعہ ہے۔ اس طرح کی حر کات کرنے والوں کا کسی مذہب سے تعلق نہیں ہوتا، ان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، ان کا تو انسانیت سے بھی کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
جہاں تک اسلام کا تعلق ہے تو اس کا تو مطلب ہی امن اور سلامتی ہے وہ انسانوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا چاہتا ہے، وہ اس چیز کا درس نہیں دیتا کہ صرف اپنے آپ کو ڈوبنے سے بچانا ہے، بلکے جو بھی ڈوب رہا ہو اس کو بھی بچانا اس کا فرض ہے۔ وہ یہ درس دیتا ہے کہ جس نے "ایک انسان کو قتل کیا اس نے پوری انسانیت کو قتل کر دیا"۔
اس قسم کی حرکات کرنے والوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اس وقت میں تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھ رہی ہوں جب مسلمانوں نے حمص کو فتح کیا تو وہاں کی عیسائی رعایا سے جزیہ وصول کیا۔ مسلمان جس علاقے کو فتح کرتے تو وہاں کے باشندوں کو اجازت ہوتی کہ وہ چاہیے تو اسلام قبول کر لیں اور اگر اپنے مذہب پر قائم رہنا چائیے تو کھلی اجازت تھی۔ اس صورت میں مسلمان غیر مسلموں کے جان، مال، عزت، آبرو کی حفاظت کا زمہ لیتے تھے، اسی نسبت سے انھیں اہلِ ذمہ کہا جاتا تھا اس کے بدلے میں حکومت ان سے نہایت معمولی ٹیکس وصول کرتی تھی جسے جزیہ کہا جاتا تھا۔
حمص کو فتح کرنے کے بعد مسلمانوں نے حمص کے عیسائیوں سے جزیہ لیا۔ کچھ عرصے کے بعد جب مسلمانوں نے دیکھا کہ رومیوں کا لشکر حمص کی طرف بڑھ رہا ہے تو جنگی تدبیر کے پیشِ نظر حمص کو خالی کرنا پڑا، انہوں نے وہاں کے پادریوں اور سرداروں کو بلایا اور ان سے کہاکہ ہم یہاں سے جا رہے ہیں ہم تمھاری حفاظت نہیں کر سکتے، اس لئے تم سے جو جزیہ کی رقم لی تھی اب اس پر ہمارا کوئی حق نہیں نہیں ہے، ہم اسےواپس کرتے ہیں، تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ حمص کے باشندے بھی عیسائی تھے اور رومی جو یہاں دوبارہ واپس آ رہے تھے وہ بھی عیسائی تھے، لیکن اہلِ حمص کا یہ عالم تھا کہ وہ روتے تھے اور مسلمانوں کے لشکر سے درخوستیں کرتے تھے کہ وہ یہاں سے نہ جائیں۔
حضرت عمرؓ کے دور میں پابندی عہد کی ایسی ایسی مثالیں ملتی ہیں جنھیں دیکھ کر آج کا انسان محوِ حیرت ہو جاتا ہے۔ ایک دفعہ حضرت عبادہ بن صامتؓ دمشق کے ایک گاؤں کےقریب سے گزرے۔ رفیقِ سفر سے کہا کہ کسی درخت سے مسواک کاٹ لائیے، وہ اٹھا ہی تھا کہ آپ نے اسے یہ کہہ کر روک دیا کہ کہ ان کے ساتھ جو معاہدہ ہوا ہے، اس میں اس قسم کی کوئی بات طے نہیں ہوئی تھی، اس لئے ہمیں یہاں سے مسواک نہیں لینی چاہئے۔
اِسی طرح ابو درداؓ کا جب کسی اہلِ زمہ کے گاؤں پر سے گزر رہتا اور آپ وہاں پانی پینے یا جانور کو چرنے کے لئے چھوڑ دیتے تو روانگی کے وقت ایک ایک پائی کا حساب کرکے قیمت ادا کر دیتے اور اس میں یہ کہہ کر کچھ زاہد بھی شامل کر دیتے کہ ہم ان کے درختوں کے سائے تلے بھی تو بیٹھے تھے، اس آسا ئش کا بھی معاوضہ دینا چاہیے۔
حضرت عمرؓ نے مفتوحہ علاقوں کی دفتری زبان نہیں بدلی۔ اسلام سے پہلے عراق کا دفتر فارسی زبان میں، شام کا رومی زبان میں اور مصر کا قبطی زبان میں تھا۔ فتح کے بعد دفتری کاروبار انھیں زبانوں میں باقی رکھا گیا۔
ہمارے دین میں پوری نوعِ انسانی کی منفعت ہر زور دیا گیا ہے اسی لئے کہا گیا ہے
وُمُا یُنفُعّ الناسُ فُیُمکّثّ فِی الاُرضِ(13:17)
جو چیز پوری نوعِ انسانی کے لئے ہو، اسی کو بقا حاصل ہوسکتی ہے، وہی باقی رہ سکتی ہے اور دوسری چیزیں سب مٹ جائیں گی، ذاتی منفعت، قومی منفعت، خاندانی قبائل یہ کچھ باقی نہی رہے گا جو مُا ینفُعُ الناس یعنی نوع انسانی کے فائدہ میں ہوگا وہ باقی رہے گا۔
یہ اسلام کا بہت بڑا دعویٰ ہے تو وہ کس طرح کسی دوسرے انسان کو تکلیف دینے والے کا ساتھ دے سکتا ہے!
اس کے بعد وہ تمام عناصر جو پا کستان کے دشمن ہیں وہ اس حادثہ کے پیچھے کار فرما ہیں! پا کستان کو عدم استحکام کا شکار کرنا چا ہتے ہیں!
یہ حادثہ پکار پکار کر ہمارے حکمرانوں سے تحقیق کا مطالبہ کرتا ہے کہ اس میں شامل عناصر کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے تا کہ ہمارے مسیحی بھائیوں کے غم پر کسی حد تک مرہم رکھی جائے!
اسلام نہ صرف ظلم کی مزمت کرتا ہے بلکے اس کو روکنے کے لئے جنگ تک کا حکم دیتا ہے، چاہے ظلم کا شکار غیر مسلم ہی کیوں نہ ہوں!
ایک بات کہ پاکستان پاکستان میں رہنے والے سب باشندوں کا ہے چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں!
پا کستان میں صرف دہشت گردوں کے لئے کوئی جگہ نہیں چاہے وہ نام نہاد مسلمان بھی کیوں نہ ہوں!