Islam Aik Mukamal Zabta e Hayat
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات
میری بیٹی فاطمہ کا سیکنڈ ائیر کا کل اردو کا پرچہ تھا۔ اس کو پرچے میں مضامین لکھنے کے لئے دئے گئے تو ان میں سے ایک مضمون کا عنوان تھا "اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات" ہے۔ تو فاطمہ مضمون نہ لکھ سکی۔ مجھے سب سے پہلے تو اپنے آپ پر افسوس ہوا پھر اس نظامِ تعلیم پر جس میں ہم اپنی آنے والی نسل کو کچھ تعلیم نہیں دے سکے۔ یہ نسل کوئی مریخ سے نہیں آئی۔ ہمارے ہی ہاتھوں میں بڑی ہوئی ہے۔
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، ایک نظامِ زندگی ہے اس کے نفازکے لئے بہرحال ایک الگ مملکت کی ضرورت ہوتی ہے اسلام کے نفاز کے لئے الگ مملکت کی ضرورت کیوں ہوتی ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس کے جواب کے لئے ہمیں مختلف نظاموں کا مطالعہ کرنا پڑے گا۔ جیسے کمیونزم، سو شل ازم، کیپٹل ازم وغیرہ۔
کمیونیزم کا بانی کارل مارکس (karl. marx)1818-1883 تھا۔ وہ نظامِ سرمایہ داری کے خلاف تھا، مارکس نے جو اُصول دیا تھا وہ یہ تھا کہ ہر شخص اپنی استعداد کے مطابق کام کرے اور اسے اس کی ضرورت پوری کرنے کے لئے دیا جائے۔ یہ اُصول تو بڑا زریں ہے لیکن یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک شخص جان مار کر مسلسل محنت کرے اور اس میں سے صرف اتنا لے جتنی اُس کو ضرورت ہے! وہ ایسا کیوں کرے گا؟ وہ کون سا جزبہ ہوگا جو اس کو ایسا کرنے پر مجبور کرے گا! مارکس نے اس امر کا اعتراف کیا کہ انسانی مسائل کا حل صرف اس نظام میں ہے مگر میں اس کو ممکن العمل نہیں پاتا، کیونکہ اس کو وہ جزبہ نہیں مل رہا تھا جو جان مار کر محنت کرئے اور صرف اپنے لئے اپنی ضرورت کے مطابق لے۔
اس سے نچلا درجہ سوشل ازم ہے، جو بدترین نظام ہے۔ اس میں زرائع پیداوار اسٹیٹ کے پاس چلے جاتے ہیں۔ اسٹیٹ کے پاس سب اختیارات ہوتے ہیں لیکن انسان بہرحال وہ ہی ہوتے ہیں جو عام سطح کے انسان جو اختیار پا کر فرعون بن جاتے ہیں، اور دوسری طرف سرمایہ دارانہ نظام جہاں دولت چند افراد کے ہاتھوں گردش کرتی رہتی ہے۔ محنت کرنے والے کو تو اتنا نہیں ملتا لیکن جس کے پاس سرمایہ ہوتا ہے وہ اس سرمایہ کے بل بوطے پر زیادہ سمیٹتا چلا جاتا ہے۔ انسان بہرحال کوئی بھی نظام وضع کرنے میں ناکام رہا جو انسانوں کے مسائل کا حل دریافت کرسکتا!
یہ حل صرف وحی خداوندی کے ذریعے اللہ انسانوں کو مختلف پیغمبروں کے ذریعے دیتا رہا، لیکن انسان اس میں ردوبدل کرتا رہا اب یہ نظام ہمارے دین میں موجود ہے جو قرآن پاک میں محفوظ ہے کیونکہ اس کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے لے رکھا ہے۔ کمیونیزم نے خدا کا انکار کیا، لیکن اسلام ہمیں وہ جزبہ محرکا دیتا ہے جو کمیو نیزم نہ دے سکا!
قرآن کے معاشی نظام کی بنیاد یہ ہے کہ یہ انسانوں کے اندر تبدیلی لاتا ہے۔ جب وہ تبدیلی پیدا ہوتی ہے تو ان ہاتھوں میں اقتدار دیتا ہے۔ اس تبدیلی کی ایک جھلک ان الفاظ میں دی گئی ہے کہ یُو ثِرونّ علیٰ اٰنفِسھِم وّ لّو کّانّ بِھِم حّصّا صّہ 59:9
"یہ ہمیشہ دوسروں کی ضروریات کو اپنی ضروریات پر ترجیح دیتے ہیں، خواہ انہیں خود تنگی ہی سےگزارہ کیوں نہ کرنا پڑے"۔
ایسے انسانوں کے ہاتھوں مملکت کی باگ دوڑ دی جاتی ہے اور یہ نظام ریاستِ مدینہ اورخلافتِ راشدہ کے دور میں ایک دفعہ قائم ہو چکا ہے اور دوبارہ دنیا کو دیکھانے کے لئے کہ اسلام ایک مکمل نظامِ زندگی اور ضابطہ حیات ہے ہم نے زمین کا یہ ٹکرا حاصل کیا تھا!
حضرت عثمانؓ مسلمانوں کے تیسرے خلیفہ تھے ان کے دور میں راشن بیت المال سے ملا کرتا تھا۔ اس میں شکر نہیں ہوتی تھی۔ ایک دفعہ آپ نے کھانا کھانے کے بعد اپنی زوجہ سے دریافت کیا کہ کیا کوئی میٹھا ہے تو انھوں نے بتایا کہ بیت المال سے جو راشن آتا ہے اس میں شکر نہیں ہوتی۔ آپ کی زوجہ نے روزانہ کے آٹے میں سے مٹھی بھر آٹا الگ کرنا شروع کیا اور اس کے بدلے میں شکر خرید لی، بارٹر سسٹم میں اس طرح اشیاء کا تبادلہ ہوتا تھا۔ ہفتہ بعد انھوں نے کھانا کے ساتھ حلوہ بھی رکھ دیا۔
حضرت عثمان کے پوچھنے پر انھوں نے سارا واقعہ بتا دیا۔ آپ نے زوجہ محترمہ کا شکریہ ادا کیا اور کھانا کھانے کے بعد سیدھا بیت المال گئے اور کہا کہ آپ (جو بیت المال میں راشن کا امین تھا) مٹھی بھر آٹا ہمارے آٹے میں سے کم کر دیں کیونکہ ہفتہ بھر کے تجربہ نے بتایا ہے کہ ایک مٹھی کم میں بھی ہمارا گزارا ہو جاتا ہے!
یہ ہے وہ دل جو جان مار کر محنت کرنے کے بعد بھی اپنی کمائی خوشی خوشی دوسروں کو دے دیتا ہے! یہ ہے اسلام جس میں کوئی انسان کسی انسان کا مختاج نہیں ہوتا!
اس لئے صرف اور صرف اسلام کو ایک مکمل ضابطہ حیات قرار دیا گیا ہے!