Hum Tab Jashan Manaye Ge?
ہم تب جشن منائیں گے؟
میں نے ایک آرٹیکل پڑھا جس کا عنوان تھا سر کاٹ دو۔ وہ آرٹیکل کچھ یوں تھا کوفہ ایک بار پھر فتح ہوا۔ معصب ابنِ زبیر تحت پر براجمان ہوا۔ اس کے سامنے مختار ثقفی کا سر کاٹ کر لایا گیا۔ اس نے فرمان جاری کیا کہ جشن مناؤ، دشمنِ اسلام مارا گیا دربار میں بیٹھا ایک بوڑھا مسکرا دیا۔ معصب نے دریافت کیا، کیوں ہنستا ہے بڈھے؟ بڈھے نے کہا، ماضی یاد آ گیا۔ حال سامنے ہے۔ مستقبل آدھا دکھائی دے رہا ہے۔
معصب نے حکم دیا کہ تفصیل بتائیں۔
بوڑھے نے بولنا شروع کیا۔ یہی دربار تھا، عبید اللہ ابنِ زیاد تحت پر بیٹھا تھا، حسینؑ ابنِ علیؑ کا سر لایا گیا۔ ابن زیاد نے کہا جشن مناؤ، دشمنٍ اسلام مارا گیا۔ ہم نے جشن منایا، ایک بار پھر یہی دربار تھا۔ ہم جشن مناتے جاتے، عبدالملک بن مروان کا دور آ گیا اور اس نے دربار کی عمارت کو گرا کر اور دربار کو کوفہ کے کسی اور علاقے میں تعمیر کرنے کا حکم دیا۔
پھر وہ آگے لکھتے ہیں کہ
بھٹو گیا ضیاء آیا۔ ہم نے جشن منایا
ضیاء الحق کا جہاز تباہ ہوا۔ ہم نے جشن منایا
بے نظیر کی حکومت گری۔ ہم نے جشن منایا
نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ ہم نے جشن منایا
مشرف آیا۔ نواز شریف اور بے نظیر دونوں کو جلا وطن کر دیا گیا۔ ہم نے جشن منایا
گیلانی کی حکومت ختم ہوئی۔ ہم نے جشن منایا
ایک بار پھر ہم جشن منا رہے ہیں۔ اب اگلا جشن بھی ہو گا۔ اب ہم بحیثیتِ قوم کسی بھی جماعت سے تعلق رکھتے ہوں، صرف جشن مناتے رہیں گے۔
ہم سوچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟
اگر رکھتے ہیں تو سوچتے کیوں نہیں؟
اندھی تقلید کوئی ہم سے سیکھے۔
اس قوم کو کسی عبدالملک کی تلاش ہے جو اس عمارت کو گرا کر نئی عمارت کی تعمیر کا حکم دے۔
عبدالملک نے عمارت تو گرا دی لیکن دوسری جگہ جو نئی عمارت تعمیر کرنے کا حکم دیا۔ اگر اس کی جگہ وہ اس نظام کو گرا دیتا۔ جو اب تک ہماری جڑیں کھوکھلی کر رہا ہے۔ اقبالؒ بار بار صدرِ اول کے اسلام کا ذکر کرتے رہے۔ کاش عبدالملک صدرِ اول کے اسلام کو واپس لے آتے۔ صدرِ اول کا اسلام کون سا تھا؟ وہی نظامِ حکومت جو سب سے پہلےحضور ﷺ نے مدینہ میں نافذ کیا اور اس کے بعد خلافتِ راشدہ کے دور میں دنیا نے دیکھا۔
اور اس کے بہت بعد اقبالؒ نے اسی نظام کا خواب دیکھا جو اپنی آزاد مملکت میں ہی قائم ہو سکتا تھا جس کے لئے اس پاکستان کو قائدِاعظم نے ہمارے لئے نہ صرف انگریزوں، ہندؤں کی مخالفت مول لی، ان کی مخالفت تو قابلِ فہم تھی لیکن ہمارے اپنوں کی مخالفت، میری مراد علماء کا گروہ ہے۔ یہی علماء کا گروہ جو پاکستان کا شدید مخالف تھا، وہ پاکستان کے قیام کے بعد فوراََ پاکستان آ گئے اور پھر کیا ہوا؟
کبھی کبھی ہمیں اس نظام کی جھلک کے آثار نظر آئے۔ لیاقت علی خانؒ کی شکل میں، جن کے اکاؤنٹ میں ان کی وفات کے وقت کوئی رقم موجود نہیں تھی۔ بیگم رعنا لیاقت علی بتاتی ہیں کہ وزیرِاعظم ہاؤس کو جو چینی کا کوٹہ ملتا تھا وہ اس قدر کم ہوتا تھا کہ چینی 15 دن میں ختم ہو جاتی اور بچوں اور مہمانوں کو پھیکی چائے دینی پڑتی تھی۔ ان کا اپنا کوئی گھر نہیں تھا وہ کہتے کہ جب میں اپنا گھر بنانے کے بارے میں سوچتا ہوں تو میرے دل میں خیال آتا ہے کہ کیا پاکستان کے ہر فرد کے پاس اپنا گھر موجود ہے؟ زیادہ دور نہ جائیں ہمیں آج کے دور میں بھی ایسے ایسے ایماندار انسان ملتے ہیں جن کی ہم شاید قدر نہ کر سکے۔
معراج خالد جو کہ پیپلز پارٹی سے تعلق رکھتے تھے جو وزیرِاعظم بھی رہ چکے ہیں۔ وہ اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لئے رکشہ میں جا رہے تھے اور اسی سڑک پر وزراء پروٹوکول کے ساتھ گزر رہے تھے اور حسبِ معمول پروٹوکول کی وجہ سے ٹریفک رکی ہوئی تھی، اور آپ کو اجلاس میں شرکت کرنا تھی، پروٹوکول گزرنے کی وجہ سے آپ تاخیر سے پہنچے، اور یہی معراج خالد صاحب جب وزیرِاعظم تھے تو ان کی بیگم خاتونِ اول سبزی والے سے سبزی کی قیمت زیادہ ہونے پر لڑ رہی تھیں۔
ہمیں اس نفسا نفسی اور پیسے کی دوڑ میں ایسے نادر ہیرے ملتے رہے، لیکن میں بار بار یہی کہوں گی کہ ہم ان کی قدر نہ کر سکے۔ ہم پھر اسی مثالی حکومت کی تلاش میں تھے کہ ہمیں خان صاحب مل گئے، ہم نے اپنے سارے خواب ان سے جوڑ لیے، ہم نے جشن منایا کہ اب ہمیں ہمارے خواب مل جائیں گئے، لیکن پھر ہمیشہ کی طرح وہی ہوا، ہمارے خواب ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر کہاں پورے ہو سکتے تھے، خالی لفظوں سے خلافتِ راشدہ کیسے بن سکتی تھی؟
یاد رکھیں، نظامِ حکومت شخصی ہو یا جمہوری، اگر اس کی اساس خدا کی کتاب پر نہیں، تو وہ ملوکیت ہے۔ اس کے برعکس جس نظام کی بنیاد، ضابطہ قوانینِ خداوندی پر ہے وہ عین اسلام ہے۔ اسے خلافت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اور جو یہ نظام بنائے گا ہم تب جشن منائیں گے۔ جب مجاہد کی ازاں اس پاک وطن میں گونجے گی۔
الفاظ و معنی میں تفاوت نہیں لیکن
ملا کی ازاں اور مجاہد کی ازاں اور
پرواز ہے دونوں کی اسی اک فضا میں
گرگس کا جہاں اور ہے شاہین کا جہاں اور