Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Kiran Arzoo Nadeem
  4. Ho Na Jaye Ashkara Shara e Peghambar Kahin

Ho Na Jaye Ashkara Shara e Peghambar Kahin

ہو نہ جائے آشکارا شرع پیغمبر کہیں

اس دفعہ 23 مارچ والے دن پہلا روزہ تھا۔ اس وجہ سے میں نے رمضان کے حوالے سے لکھا پھر مجھے یاد آیا کہ مردِ ناداں حکیم الامت علامہ اقبال کا خواب مسلمانِ ہند کے لئے اپنی الگ مملکت کے قیام کا اعلان 23 مارچ کو ہوا۔ اقبال کا خواب کہ مسلمانوں کو الگ مملکت ملے جہاں وہ اسلام کے اُصولوں کو آزما سکیں اور دنیا ایک دفعہ پھر اسلامی نظام کو جیتی جاگتی شکل میں دیکھ سکے۔ یہ ملک تو ہمیں مرد مومن نے لے کر دے دیا لیکن ستر برس میں ہم کچھ نہ کر سکے۔

سیکولرازم میں صرف روٹی ملتی ہے۔ قرآنی نظام میں سب کچھ ملتا ہے اور مذہب میں نہ وہ ملتا ہے نہ یہ۔ پاکستان میں ہمارے ساتھ یہی ہو رہا ہے۔ ہمارے ہاں درحقیقت سیکولرازم رائج ہے لیکن ہم کھلے بندوں اس کا نام لینے سے جھجکتے ہیں، نہ ہی ہمارے ہاں دینِ (قرآنی نظام) ہے۔ میں آج 23 مارچ کے حوالے سے ماضی کی وہ تاریخ لکھنا چاہتی ہوں جو اب تک عوام کو نہیں بتائی گئی۔

1935 میں قائدِاعظم نے مسلم لیگ کو نئی زندگی دی اور اس کی تنظیمِ نو شروع کی۔ نیشنلسٹ علماء حسین احمد مدنی، مفتی کفایت اللہ اور احرار کے سب علماء مسلم لیگ کے ساتھ تھے۔ 1937 میں پہلے انتخابات ہونے تھے۔ مسلم لیگ نے فیصلہ کیا کہ وہ انتخاب لڑے گی اس انتحاب کے لئے مرکزی پارلیمنٹ بورڈ تشکیل دیا گیا اس میں مولانا حسین احمد مدنی اور مفتی کفایت اللہ اس بورڈ کے ممبر تھے، احرار والے بھی ممبر تھے۔

بورڈ کی میٹنگ میں سوال پیدا ہوا کہ انتخابات لڑنے ہیں تو اس کے لئے جگہ جگہ کوشش کرنی چاہیے تو ان انتخابات کے لئے اخراجات کی ضرورت ہوگی، اس مقصد کے لئے ہمیں 50 ہزار روپے دیں۔ اس زمانے میں مسلم لیگ کے پاس 50 ہزار چھوڑ، 50 روپے بھی نہ تھے۔ یہ دونوں حضرات حسین احمد مدنی اور مفتی کفایت اللہ یہاں سے اُٹھے اور کانگرس کے ساتھ جا ملے۔ وہاں جا کر کہا کہ مسلم لیگ جو اسلام پیش کرتی ہے وہ کفر ہے، اسلام تو یہ ہے جو ہم پیش کر رہے ہیں۔

یہ بات اصفہانی نے اپنی کتاب quaid e azam my leader میں بتائی کیونکہ اصفہانی خود اس پارلیمنٹ کے رکن تھے اور جو اسلام یہ علماء حضرات پیش کر رہے تھے اس کی تائید کون کر رہا تھا۔ اس کی تائید ہندو کر رہا تھا۔ ہندوؤں کی طرف سے یہ مطالبہ ہو رہا تھا کہ قائدِاعظم اگر اس مطالبہ کو چھوڑ دیں کہ اسلام کی بناء پر یہ ملک قائم ہوگا تو تقسیم کے مسئلہ پر بھی ہمارے درمیان مفاہمت ہو سکتی ہے۔

اصل مسئلہ کہ قائدِاعظم یہ مطالبہ چھوڑ دیں کہ اسلام کے نام پر ملک قائم ہوگا، اصل تکلیف ہی تمام دنیا کو یہ ہے کہ کہی اسلام کے نام پر واقعی کوئی نظام قائم نہ ہو جائے اور اس کا وجود اب تک سب کو کھٹک رہا ہے اور خدانخواستہ اس کو ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔

پارلیمان میں کانگرس پارٹی کے لیڈر تھے مسٹر گولابائی ڈیسائی نے کہا تھا کہ اب یہ ناممکن ہے کہ ایسا نظامِ حکومت قاِئم کیا جا سکے جس کی بنیاد مذہب پر ہو۔ اب وقت آ چکا ہے کہ ہم اعتراف کر لیں اور اسے اچھی طرح ذہن نشین کر لیں کہ زمین، مذہب اور خدا کو اُس کے مناسب مقام پر یعنی آسمان کی بلندیوں پر رکھ دیا جائے، انہیں خوامخواہ زمین کے معاملات میں گھسیٹ کر نہ لایا جائے۔ اس پر ہندوستان ٹائم نے کہا تھا کہ حکومت الٰہی کا تصور ایک داستانِ پارینا ہے اور مسلمانوں کا یہ فعلِ عبث ہوگا اگر ہندوستان جیسے ملک میں اس کی کوشش کریں جہاں مختلف جماعتیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔

اس کے بعد وہ مزید کہتے ہیں کہ یہ امر خوش آئند ہے کہ مسلمانوں کے راہنما اس سراب کے پیچھے لگنا نہیں چاہتے۔

گاندھی نے لکھا تھا کہ اگر میں ڈکٹیٹر ہوتا تو مذہب اور حکومت کو الگ الگ کر دیتا۔ مذہب کو حکومت سے کیا واسطہ؟ مذہب دنیاوی معاملہ ہے اور ہر شخص کا پرائیوٹ معاملہ ہے۔ 1940 کی جب قرارداد پاس ہوئی تو اس پر تبصرہ کرتے ہوئے گاندھی نے لکھا تھا کہ میں جسارت کے ساتھ اس امر کا اعلان کرتا ہوں کہ مسٹر جناح اور اُن کے ہم خیال حضرات اپنی اس روش سے اسلام کی کوئی خدمت سرانجام نہیں دے رہے بلکہ وہ اُس پیغام کی غلط ترجمانی کر رہے جو لفظ اسلام کے اندر پوشیدہ ہے۔

یکم نومبر 1941 میں لدھیانے میں اکھنڈ بھارت کانفرنس ہوئی تھی جس کے صدر کانگرس کے لیڈر مسٹر منشی تھے، انہوں نے تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ تمہیں کچھ معلوم بھی ہے کہ پاکستان ہے کیا؟

نہیں معلوم تو سن لیجئے کہ پاکستان سے مفہوم یہ ہے کہ مسلمانوں کو اس کا حق حاصل ہے کہ وہ ملک کہ ایک یا ایک سے زیادہ حصے میں اپنے لئے ایسا مسکن بنا لیں جہاں طرزِ حکومت قرآنی اُصولوں کے ڈھانچے میں ڈھال سکیں۔ جہاں اُردو اُن کی زبان بن سکے، مختصراً کہہ لیجئے کہ پاکستان ایسا خطہ ارض ہوگا جہاں اسلامی حکومت قائم ہوگی اور اس کے بعد پکار کر کہا تھا کہ ہم آخر تک اس کی مخالفت کریں گے۔

یہ وجہ ہے کہ آج بھی جب کہ ہم اسلامی نظام رائج نہیں کر سکے لیکن پھر بھی دنیا کا خوف ختم ہی نہیں ہو رہا کہ

ہو نہ جائے آشکارا شرع پیغمبر کہیں۔

Check Also

Fahash Tarkari

By Zubair Hafeez