Hath Hai Allah Ka Banda e Momin Ka Hath
ہا تھ ہے اللہ کا بندہ مومن کا ہاتھ
اندھیری رات میں کوئی ایسی خبر اگر آپ کی نظر سے گزرے تو یوں لگتا ہے کہ سیاہ رات کے بعد صبح ہونے والی ہے۔ میٹرک کی طالبہ جو اپنے بھائی کے ساتھ تھی، اس کو شاد باغ کے علاقہ سے اغوا کر لیا گیا۔ لیکن تمام اعلٰی افسران خاموش تھے ایک دم چیف جسٹس نے سو موٹو نوٹس لے لیا اور ڈی آئی جی کو کہا گیا کہ اگر آپ کی یا ہماری بچی اغوا ہوتی تو کیا ہوتا؟ سب کی نوکریاں خطرہ میں پڑ گئیں۔
سی ٹی وی فوٹیج تو پہلے بھی موجود تھی اُس وقت شاید اتنی تیزی سے کام کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ رات سے پہلے وہ بچی پاک پتن سے باز یاب کروا لی گئی۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اگر آپ صاف نیتی اور فرض شناسی سے کام کرنا چاہیں تو کیا کچھ نہیں ہو سکتا۔
اہلِ مکہ جو قریش کے مظالم سے تنگ آ کر مدینہ ہجرت کر گئے تھے۔ کچھ آبادی مکہ میں رہ گئی۔ قریش نے انھیں بے پناہ ظلم و ستم کا نشانہ بنایا تو ان مظلوموں نے خدا سے مدد مانگی۔ خدا براہِ راست ان کی مدد کر کے ان کو وہاں سے نکال سکتا تھا "خدا کے لئے کیا مشکل تھ" لیکن یہی وہ مقام ہے جو غور طلب ہے۔ خدا نے مدینہ کی جماعت مومنین سے کہا، سورہ النساء کی آیت نمبر 4/75 میں ہے۔
"اے جماعتِ مومنین! تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں جنگ کے لئے نہیں نکلتے۔ تم سن نہیں رہے کہ مکہ کے کمزور ناتواں مرد، عورتیں، بچے ہمیں پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ ہمارے پروردِگار! ہمیں اس بستی سے نکالیں! جس کے رہنے والے اس قدر سفاک ہیں اور ہمارے لئے اپنی جناب سے کوئی محافظ، نگران، کوئی سرپرست اور مدد گار بھیج دے"۔
یہ نقطہ بے حد غور طلب ہے کہ مکہ والے پکار تو خدا کو رہے ہیں اور خدا اہلِ مدینہ والوں سے کہہ رہا ہے کہ تم ان کی پکار سنتے نہیں ہو؟ تم ان کی مدد کے لئے کیوں نہیں اٹھتے؟ یہ حکم صرف اس وقت تک کے لئے نہیں تھا بلکہ رہتی دنیا تک کے تمام مومنوں کے لئے ہے کہ جہاں کہی بھی مظلوم پر ناحق ظلم ہو رہا ہو وہ اس کی مدد کے لئے نکلے۔ یہ اسلامی نظام کا فریضہ ہے۔ اس لئے اللہ نے مومن کو اپنا رفیق کہہ کر پکارا ہے۔ اور اقبال نے اس حقیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ
ہاتھ ہے الله کا بندہ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفرین "کار کشا" کار ساز