Haq Ki Awaz
حق کی آواز
جو قومیں تاریخ سے سبق سیکھتی ہیں وہ ان حادثات کو کبھی نہیں بھولتیں جن حادثات نے ان کی زندگی میں تباہیاں مچاہی ہوتی ہیں۔ جاپان میں آج بھی وہ دن جس دن امریکہ نے ہیرو شیما اور ناگا ساکی ہر بم پھینکا تھا اس کی یاد مناتے ہیں تا کہ اس کی آنے والی نسلیں اس ظلم کو یاد رکھیں اور آئندہ اپنی قوم کو اس حادثے سے بچائیں۔
قرآن نے قوموں کی تباہی کا ذکر اس لئے کیا ہے کہ وہ ہمیں بتاتا ہے کہ غلط نظام بالا آخر تباہ ہو کر رہتا ہے۔ ہم نے پا کستان اس نظریہ کی بنا پر بنایا تھا کہ اس میں خدا کے قو انین کی حکمرانی ہوگئی اور ٹھیک نظام قائم ہوگا۔ بنانے والے تو بنا کے چلے گئے۔ لیکن ہماری داستان کچھ بنی اسرائیل سے ملتی جلتی ہے کہ ہم نے اس آزادی کے مطلب کو سمجھا ہی نہیں۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ اب بھی کچھ روحیں موجود ہیں جن کے دل میں نظریہ پاکستان زندہ ہے!
آج کل سوشل میڈیا پر یہ ویڈیو گردش کر دہی ہے جس میں ایک بچی نعرے لگوا رہی ہے، یہ نعرے بنگالی میں ہیں اور ان کا ترجمہ ہے
تم کون ہم کون۔۔ رضا کار رضا کار
بنگلہ دیش میں رضا کار کا مطلب کیا ہے؟ رضا کار وہ لوگ تھے جنھوں نے رضا کارانہ طور پر پاک فوج کا ساتھ دیا تھا اور ان میں کچھ لوگوں کو ہم الشمس اور البدر کے نام سے جانتے ہیں۔ البدر میں وہ لوگ شامل تھے جو طالب علم تھے انھوں نے پاک فوج کا مکتی باہنی کے خلاف ساتھ دیا تھا۔ اس کے بعد جب بنگلہ دیش بن گیا تو وہ جانوروں کی طرح زبح کیے گئے۔ اُن کی اگلی نسل ہے جو اس خون حرابے سے بچ گئے تھے۔ جنھوں نے پا کستان کو دو ٹکرے ہوتے دیکھا تھا۔ یہ لوگ انھی کی اگلی نسل ہیں۔
جب میں یہ ویڈیو دیکھ رہی تھی اس وقت میری آنکھیں آنسووں سے بھر گئیں اور میں تاریخ میں بہت پیچھے سقوطِ ڈھاکہ کے وقت چلی گئی اور اندرا گاندھی کا وہ خطاب یاد آگیا جو ہمیں ہماری نا کامیاں یاد کروا رہا ہے!
اندرا گاندھی نے پہلا اعلان جو اس نے اپنی پارلیمان میں دیا تھا اس میں اس نے کہا کہ یہ جو مشرقی پا کستان میں ہماری کامیابی ہوئی ہے، عام طور پر یہ آپ سمجھیں گئے کہ یہ ہماری فوجوں کی کامیابی، ہمارے جرنیلوں کی کامیابی ہے ہمارے لشکروں کی، ہمارے ہتھیاروں کی کامیابی ہے۔ یہ سب تو ذرائع ہیں۔ اصل میں یہ کامیابی حق کے نظام کی باطل کے نظام پر ہے۔ ہم پا کستان سے کہہ رہے تھے کہ تمھارے ہاں غلط نظام قائم ہو رہا ہے۔ بچ جاو، انھوں نے ہماری نہ سنی، آج دنیا نے دیکھ لیا کہ اس کا نتیجہ کیا ہوا۔ وہ تو بات سمجھ گئی کہ یہ ٹکراو، دو نظاموں کا تھا۔
لیکن وہ یہ نہ سمجھ سکی کہ باطل کبھی حق پر غالب نہیں آ سکتا۔ ہماری غلطی یہ تھی کہ ہم کوئی نظام ہی قائم نہ کر سکے! نہ حق نا باطل!
لیکن جس نظریہ کی بناء پر پا کستان بنا وہ بحر حال حق تھا اور حق کی آواز آج پھر ان طالب علموں کے دل سے نکل رہی ہے!