Friday, 19 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Kiran Arzoo Nadeem/
  4. Hamare Saare Khwab Toot Gaye

Hamare Saare Khwab Toot Gaye

ہمارے سارے خواب ٹوٹ گئے

کچھ دن پہلے حمزہ شہباز نے سگنل پر گاڑی روک دی اور اشارہ کھلنے کا انتظار کیا "اشارہ کھلنے تک وہ عام ٹریفک کے ساتھ کھڑے رہے۔ مجھے یہ خبر سن کر بڑی خوشی ہوئی "یہ اتنی بڑی خوشی کی بات تو نہیں تھی لیکن جب آپ کے بڑے بڑے خواب ٹوٹ جاتے ہیں تو یہ چھوٹی سی خبر اندھیری رات میں آپ کو بڑی خوشی دے دیتی ہے"۔

جب پتہ چلتا ہے کہ اسحٰق ڈار نے ARY پر ہتکِ عزت کا کیس کیا تھا اور وہ لندن کی عدالت سے یہ کیس جیت چکے ہیں اور جیتی ہوئی رقم انھوں نے عطیہ کر دی ہے تب بھی بڑی خوشی ہوتی ہے اگرچہ ہمارے خواب تو بہت بڑے بڑے تھے لیکن جب خواب ٹوٹ جائیں تو! ہمیں خان صا حب نے بڑے بڑے خواب دکھائے تھے۔

میں یہ بار بار لکھ چکی ہوں کہ میں نے اپنی زندگی کا ہہلا ووٹ عمران خان کو دیا اور PTI کے شروع کے سپو رٹرز میں سے تھی جو لوگوں کو قائل کیا کرتی تھی اُس وقت ندیم (میرے شوہر) کہا کرتے تھے کہ یہ یہودیوں کا ایجنٹ ہے۔ جب خان صا حب خلافتِ راشدہ "اقبال اور قائدِ اعظم کے پا کستان کا ذکر کرتے تو میں خواب میں دور فاروقی میں چلی جاتی جب حضرت عمرو بن عاص نے معاویہ بن حدیح کو فتح اسکندریہ کی نوید دے کر امیر المومنینؑ کی خدمت میں بھیجا۔

امیر المومنینؑ مسجد میں تشریف لے گئے مؤزن کو ازان دینے کا کہا اور لوگ مسجد میں جمع ہوئے اور معاویہ نے اسکندریہ کے متعلق جو جو واقعات بتائے تو لوگ یہ سب سن کر مبہوت ہو گئے پھر معاویہ کو گھر لے گئے "ملازم نے سوکھی روٹی روغنِ زیتون کے ساتھ دستر خون پر رکھی جسے معاویہ نے جھجک جھجک کر کھایا، میں بھی خواب میں دیکھا کرتی تھی کہ خان صاحب غیر ملکی مہمانوں کے ہمراہ بیٹھے ہوئے سرسوں کا ساگ اور مکئی کی روٹی کھا رہے ہیں۔

لیکن وزیرِ اعظم صاحب تو ہیلی کاپٹر میں آسمانوں میں سفر کرتے رہے وہاں سے انھیں عام عوام کہاں نظر آنے تھے؟" خان صاحب نے ہمارے خواب توڑ دئے! میں پا کستان کے پہلے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کو بھی خواب میں دیکھا کرتی تھی۔ لیا قت علی خان کا تعلق بھارت کے ضلع کر نال سے تھا وہ اپنے علاقے کے سب سے بڑے جا گیر دار اور نواب تھے انہوں نے تقسیم کے بعد ساری زمین اور جائیداد چھوڑ دی اور پاکستا ن آنے کے بعد اس جائیداد کے عوض کچھ بھی کلیم نہیں کیا۔

لیاقت علی خان کے پاس پا کستان میں ایک انچ زمین، " کوئی بینک اکاؤنٹ "، کوئی کا روبار نہیں تھا۔ ان کے پاس تین پتلونیں " دو اچکن اور ایک بوسکی کی قمیض تھی۔ پتلون پر پیوند لگے ہوئے تھے۔ پتلون کو اپنی اچکن کے نیچے چھپا لیتے تھے۔ 16اکتوبر 1951 کو وہ شہید ہوے اور ان کی لاش پوسٹ مارٹم کے لئے لائی گئی تو دنیا یہ دیکھ کر خیران رہ گئی کہ وزیرِاعظم نے اچکن کے نیچے نہ صرف پھٹی ہوئی بنیان پہن رکھی تھی بلکہ ان کی جرابوں میں بڑے بڑے سو راخ بھی تھے۔

شہادت کے وقت نہ صرف خان صاحب کا اکاؤنٹ خالی تھا بلکہ گھر میں کفن دفن کے لئے بھی کوئی رقم موجود نہیں تھی "وزیرِ اعظم صاحب اپنے درزی اور کریانہ سٹور کے بھی مقروض تھے۔ بیگم رعنا لیاقت علی خان نے ان کی وفات کے بعد حکومت کو بتایا کہ حکومت نے وزیرِ اعظم ہاؤس کے لئے چینی کا کوٹہ مقرر کر رکھا تھا اور جب چینی ختم ہو جاتی تو بچوں اور مہمانوں کو پھیکی چا ئے دینی پڑتی۔

پچاس کی دھائی میں ایک بیورو کریٹ نے بیگم صا حب سے پوچھا کہ "انسان ہمیشہ اپنے بیوی، بچوں کے لئے کچھ نہ کچھ جمع کر کے رکھتا ہے " خان صا حب نے کیوں نہ کیا؟ تو بیگم رعنا لیاقت علی خان نے جواب دیا کہ یہی سوال میں نے بھی ایک دفعہ خان صاحب سے کیا تھا تو اس کا جواب خان صا حب نے یہ دیا "میں ایک نواب خاندان سے تعلق رکھتا ہوں اور میں نے ایک لباس ایک سے دوسری دفعہ نہیں پہنا تھا۔

میرے خاندان نے مجھے آکسفورڈ میں ایک خا نسا ماں " ڈرائیور "اور ایک خادم دے رکھا تھا"۔ ہم لوگ کھانا کھاتے یا نہ کھاتے "ہمارے گھر میں روزانہ 50 یا سو لوگوں کا کھانا پکتا تھا لیکن جب میں پا کستان کا وزیرِ اعظم بنا تو میں نے اپنے آپ سے کہا کہ لیاقت علی خان اب تمھیں نوابی اور وزارتِ عظمیٰ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو گا تو میں نے اپنے لئے وزارتِ عظمیٰ کا انتخاب کر لیا۔

بیگم رعنا لیاقت علی نے مزید بتایا کہ خان صا حب کہتے کہ میں اپنے لئے نئے کپڑے خریدنے کا ارادہ کرتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ پا کستان کے ہر فرد کے پاس نئے کپڑے ہیں؟" جب اپنا مکان بنانے کا ارادہ کرتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ پا کستان کے سب لوگوں کے پاس اپنا مکان ہے؟ اور میں جب بیوی بچوں کے لئے کچھ جمع کرنے کا اراہ کرتا ہوں تو اپنے آپ سے سوال کرتا ہوں کہ پا کستان کے تمام بیوی بچوں کے پاس جمع پونجی ہے؟ تو مجھے ان تمام سوالوں کا جواب نفی میں ملتا ہے۔

تو پھر میں اپنے آپ سے کہتا ہوں کہ ایک غریب ملک کے وزیرِ اعظم کو نیا لباس "لمبا چوڑا دستر خوان "اور اپنا مکان زیب نہیں دیتا۔

یہ تھا میرے خوابوں کا وزیرِ اعظم!

لیکن ہمارے سا رے خواب ٹوٹ گئے!

ایماندار لوگ آج بھی موجود ہیں لیکن ہم ان کو تلاش کرتے کرتے اتنا بڑا دھوکا کھا جاتے ہیں کہ

پھر ہمارے سارے خواب ٹوٹ جاتے ہیں!

معراج خا لد پیپلز پارٹی کے وزیرِ اعظم رہ چکے ہیں۔ ان کی بیگم خاتونِ اول ایک دفعہ سبزی والے سے سبزی کی قیمت کے اتار چڑھاؤ پر بحث کر رہی تھی اور معراج خالد صاحب اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لئے رکشہ پر پارلیمنٹ ہاؤس جا رہے تھے "دوسری طرف دوسرے وزرا اور ممبرز بھی وہاں سے گزر رہے تھے اور پروٹوکول گزرنے کی وجہ سے معراج خالد صا حب کو پا رلیمنٹ ہاؤس پہنچنے میں تا خیر ہو گئی۔

"ہم نے کیسے کیسے نادار گنوا دئے؟"ان کی قدر نہ پارٹی نے کی نہ ہم نے، اسی لئے تو ہمارے سارے خواب ٹوٹ گئے۔

یہ سحر جو کبھی فردا ہے کبھی ہے امروز

نہیں معلوم کہ ہوتی ہے کہاں سے پیدا

وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستانِ وجود

ہوتی ہے بندہّ مومن کی ازاں سے پیدا۔

Check Also

America, Europe Aur Israel (1)

By Muhammad Saeed Arshad