Hamara Dheeyan He Is Taraf Nahi Jata
ہمارا دھیان ہی اِس طرف نہیں جاتا
میں نے پچھلے کالم میں"انبانی کے بیٹے" کی شادی کے متعلق کالم میں ذکر کیا تھا تو مجھے میری بہت عزیز سہیلی سائرہ نے لکھا کہ شادی کی تقریبات جولائی میں ہونی تھیں۔ شادی یکم مارچ سے تین مارچ کو ہوئی ہو یا اس کی تقریبات کی کوئی بھی تاریخ ہو، میرا مقصد صرف یہ تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام کے متعلق لکھوں جس نے ہمارے معاشرہ کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ میرے خیال کے مطابق میں ہمارے دین کا نقطہ نظر کسی حد تک بتانے میں کامیاب رہی ہوں۔
لیکن ہم مسلمان معلوم نہیں ان بحثوں میں کیوں اُلجھتے ہیں جس کا ہماری عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، جیسے پاجامہ گھٹنوں سے اتنا اوپر ہونا چاہئے ورنہ نماز نہیں ہوگئی، ہاتھ ادھر باندھنے چاہیے اور پاؤں کے درمیان اتنا فاصلہ ہونا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔
اسلام کا معاشی نظام صرف دو لفظوں میں بیان کر دیا گیا ہے۔ وہ الفاظ ہیں قُطو فُھا دُ ا نِیتُ 69:23
معاشی نظام کے لئے دو ہی چیزیں چاہیں۔
(1) قطو فُھّا کہ پیداوار بہت زیادہ ہو۔ سیکولر نظام بھی اس چیز پر زور دے گا کہ پیداوار زیادہ ہو ساتھ ہی سرمایہ دارانہ نظام کی بھی یہ کوشش ہوتی ہے کہ پیداوار زیادہ ہو لیکن فرق کہا پر پیدا ہوتا کہ اگلے لفظ دّا نِیتہ میں 69:23 کہ پیداوار ہر شخص کی دسترس میں ہو۔ دانیتہ سے مراد کہ وہ پھلوں کے گچھے خود جھکے ہوں کہ ہر شخص آسانی سے ان کو پکڑ پائے۔
جس پیداوار میں ایک ہاتھ بھی اس سے محروم ہوگیا تو وہ معاشرہ جنتی معاشرہ نہیں جہنمی ہوگا۔ جنتی معاشرہ وہ معاشرہ ہوتا ہے جس میں پیداوار ہر ایک کی دسترس میں ہو۔ صرف فردِ واحد ہی سب کچھ سمیٹ کر نہ رکھ لے۔ یہ ہے اسلامی نظام، اسلامی معاشرہ، اسلامی نظامِ زندگی۔ اسی نظام کے قیام کے لئے پا کستان کا خواب دیکھا گیا تھا۔ جو کہ ہم قائم نہ کر سکے۔
1971 میں انڈیا کے ساتھ ہماری جنگ ہوئی جس میں ہمیں شکست ہوئی، اندرا گاندھی کا پہلا اعلان جو اس نے اپنی پارلیمان میں دیا تھا اس میں وہ کہہ رہی ہے کہ آپ سمجھیں گئے کہ یہ کامیابی ہماری فوجوں کی ہے، ہمارے جرنیلوں کی، ہمارے لشکروں کی، ہمارے ہتھیاروں کی ہے تو ایسا بالکل نہیں ہے۔ یہاں پر رکیں اور سوچیں کہ وہ کیا کہہ رہی ہے؟ وہ کہہ رہی ہے کہ یہ کامیابی حق کے نظام کی باطل کے نظام پر ہے! ہم پاکستان سے کہہ رہے تھے کہ پاکستان میں غلط نظام قائم ہو رہا ہے، لیکن انھوں نے ہماری ایک نہ سنی۔ دنیا نے دیکھ لیا کہ اس کا کیا نتیجہ نکلا؟ وہ تو یہ بات سمجھ گئی کہ یہ ٹکراوّ دو نظاموں کا تھا!
لیکن ہم یہ بات نہ سمجھ سکے کہ کیا حق اور کیا باطل؟ پا کستان میں تو کوئی نظام ہی قائم نہیں ہو سکا؟ ورنہ حق کبھی باطل سے شکست نہیں کھا سکتا؟ 65 کی جنگ تک ہم میں پھر بھی حق کے نظام کی جدوجہد باقی تھی؟ اس لئے قدرت نے ہمیں کامیابی دی!
قرآن ہمیں ایک ایک چیز بتاتا چلا آتا ہے کہ مِن حّیثُ لا یّشعُرونّ 16:26 تمھارا دھیان ہی اس طرف نہیں جاتا کہ یہ تباہی یہ نا کامی کی وجوہات کیا ہیں؟
یہ بات آج ہمارے پے کتنی صادق آتی ہے کہ ہمارا تو دھیان ہی اس طرف نہیں جاتا کہ ہماری ناکامی کی وجو ہات کیا ہیں؟