Haj Ka Maqsood
حج کا مقصود
انسانیت کو ایسے پلیٹ فارم کی تلاش تھی جہاں نوعِ انسانی اپنے مسائل کا حل تلاش کر سکے۔ مجبور، بے بس، کمزور انسانوں کے لئے جائے پناہ مل سکے۔ اسی مقصد کیلئے 24 اکتوبر 1945 کو اقوامِ متحدہ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس کا مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ
The united Nations is an intergovernmental organization whose purposes are to maintain international peace and security, develop friendly relations among nations, achieve international cooperation and be a centre for harmonizing the actions of nations.
اب غور کریں کیا اقوامِ متحدہ اپنے یہ مقاصد حاصل کر پائی ہے؟ کیا دکھی انسانوں کو امن، تحفظ نصیب ہو سکا ہے؟ اس کا جواب اپنے اور غیروں سب کے پاس موجود ہے۔ انسانیت چیخ رہی اس کو ایسے نظام کی تلاش ہے جہاں نوعِ انسانی ایک پلیٹ فارم پر اکٹھی ہو سکے۔ جب ہم دنیا کی تاریخ پر نگاہ ڈالتے ہیں تو یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ انسانیت ایک پلیٹ فارم پر وحی کی مدد کے بغیر اکٹھی نہیں ہو سکتی۔
اقبال نے خطباتِ اقبال میں اپنا اقتباس جو کہ انھوں نے Dennison کی کتاب emotions as the basis of civilisation سے نقل کیا ہے اس میں وہ مؤرخ لکھتا ہے کہ
"ظہورِ اسلام کے وقت ایسا دکھائی دیتا تھا کہ تہذیب کا وہ قصرِ مشید جو چار ہزار سال میں جا کر تعمیر ہوا تھا، منہدم ہونے کے قریب پہنچ چکا تھا۔ کیا ان حالات میں کوئی ایسا جزباتی کلچر کہیں سے پیدا کیا جا سکتا تھا جو نوعِ انسان کو ایک مرتبہ پھر ایک نقطہ پر جمع کر دیتا اس طرح تہذیب کو مٹنے سے بچا لیتا؟ اس کلچر کو بالکل نئے انداز کا ہونا چاہیے تھا، اس لئے کہ پرانی رسومات اور آئین و ضوابط سب مردہ ہو چکے تھے اور انہیں جیسے اور آئین کا مرتب کرنا صدیوں کا کام تھا۔ یہ امر موجبِ حیرت ہے کہ اس قسم کا نیا کلچر سر زمینِ عرب سے پیدا ہوا اور وقت پیدا ہوا جبکہ اس کی اشد ضرورت تھی"۔
اس نئے کلچر کو محمد نے دنیا کے سامنے پیش کیا۔ اس بات کو dennision تو جانتا تھا لیکن اُمتِ محمدی کے ماننے والے نہیں جانتے۔ حج کا مقصد کیا تھا؟ وہ مقصد جو اقوامِ متحدہ کے قیام کا تھا لیکن اقوامِ متحدہ انسانوں نے بنائی اس میں نقائص باقی رہ گئے لیکن حج کا حکم تو دونوں جہانوں کے پالنے والے نے دیا۔ قرآن میں جہاں جہاں حج اور کعبہ کا ذکر آیا ہے وہاں وہاں الناس سے حطاب کیا گیا ہے باقی جگہہ پر مومنین سے خطاب ہے۔
حج اسلامی نظام کا سب سے اہم پہلو ہے۔ یہ وہ مرکز تھا جہاں قرآن کا مقصود انسانیت کو جمع کرنا تھا۔ جب کوئی عالمگیر تحریک انسانیت کی اٹھے گی تو وہ اسی مرکز کے گرد جمع ہو گی۔ جب حضرت ابرہیمؑ کے ہاتھوں کعبہ کی تعمیر ہوئی تو اس مقام پر کہا گیا کہ ہم نے اس جگہہ کو پوری نوعِ انسانی کے جمع ہونے کا مقام بنا دیا۔ امن کا مقام بنا دیا۔ قرآن نے کہا ہے کہ خدا نے اس چیز کی ضمانت دی ہے کہ جو کعبہ میں آ گیا اسے امن نصیب ہو گیا، نہ صرف انسانوں بلکہ جانوروں کو بھی امن کی ضمانت دے دی گئی۔
اس لئے اس جگہ پر شکار ممنوع تھا۔ ہم امن کے لئے مارے مارے پھر رہے ہیں۔ اپنے آپ کو غیر محفوظ تصور کرتے ہیں کہ نا جانے کب کوئی طاقت آ کر کمزوروں پر چڑ دوڑے۔ خدا نے کعبہ کو امن کا مقام قرار دیا جو اس کے احاطے میں آ گیا اس کو امن نصیب ہو گیا۔ کعبہ کا مقصود نوعِ انسان کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل بنانا تھا۔ کہ کوئی فرد کسی فرد کا مختاج نہ رہے اور کوئی قوم کسی قوم کی مختاج نہ رہے۔
یہ تصور ہمیں دنیا کے سامنے پیش کرنا تھا؟ یہ فرض کس کا تھا؟ ہم مومنین کا؟ لیکن ہم تو کسی دوسرے کو اپنے پاؤں پر کیا کھڑا کرتے خود اوروں کے دستِ نگر بنے بیٹھے ہیں؟ ذرا سوچیں اس سال کتنے مسلمان حج کریں گے؟ خادمین خرمین شریفین حج کے انتظامات بڑے احسن طریقے سے انجام دیں گئے۔ لیکن پھر سوچیں کیا ہم نے نوعِ انسان کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کا سوچا؟ کیا ان کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کا سوچا؟
جب ہم آئی ایم ایف کی منتیں کر رہے ہوتے ہیں تب سب طاقتور مسلمان کہاں ہوتے ہیں؟ جو ہمیں اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ حج صرف رسم بن کر رہ گئی ہے۔اس لئے تو اقبال ابلیس کے منہ سے کہلواتے ہیں۔
ہے اگر حج کا ہنگامہ باقی تو کیا
کند ہو کر رہ گئی ہے مومن کی تیخِ بے نیام
ایک اور جگہ کہتے ہیں
نماز و روزہ قربانی
یہ سب باقی ہیں تو باقی نہیں ہے