Eid Milad Un Nabi Aur Naheed
عید میلاد النبی اور ناہید
عید میلادالنبی آ رہی ہے۔ ہر مسلمان کے لیے حضور کی ذات راہنمائی کا زریعہ تو ہے ہی یہ ذاتِ گرامی ہر مسلمان کا عشق ہے۔ اگر حضور کے متعلق کسی شخص کے بارے میں جھوٹ موٹ ہی کہہ دیا جاے کے وہ گستاخی رسول کر مرتکب ہوا ہے تو اس کی تحقیق کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی جاتی کہ آیا اس پر لگایا گیا الزام درست ہے یا جھوٹ اور پورا مجمع مل کر اس کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔
اس کی بے مثال مثالیں ہمارا معاشرہ میں موجود ہیں۔ حضور سے محبت بے تحاشا ہے۔ لیکن جس زندگی گزارنے کا انھوں نے درس دیا اور اس کا مطابق زندگی گزاری۔ ہم اس کی طرف نہیں آتے!
آپ ﷺ ایک بہترین سپہ سالار، سر براہِ مملکت تھے اور آپ ﷺ کی زندگی بہت سادہ تھی۔
حضور ﷺ کو موت کے وقت یاد آیا کہ چند دینار گھر میں موجود ہیں جب تک وہ دینار گھر میں موجود رہے آپ بے چین رہے، سکون اس وقت میسر آیا جب وہ دینار بیت المال میں جمع کروائے گئے۔
حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ حضور ﷺ کا کوئی جوڑا آج تک طے کرکے نہیں رکھا گیا کیونکہ فالتو جوڑا تھا ہی نہیں جو طے کرکے رکھا جاتا۔ واضح رہے کہ یہ تارکِ دنیا ایک صوفی کی زندگی نہ تھی۔ آپ ﷺ نے اللہ کا عطا کردا وہ نظام قائم کرنا تھا جو دو لفظوں میں بیان کیا گیا جب رب نے کہا
قُطُو فُھّا دا نِیُتہ"، 69: 23 یعنی پیدا وار زیادہ سے زیادہ ہو اور ہر ایک کی دسترس میں ہو۔ ہر شخص تک یہ رزق خود بخود پہنچ جائے!
یہ ہے اسلامی نظام۔ یہ تھے ریاستِ مدینہ قائم کرنے والے محمد ﷺ!
ایسا نظام قائم کرنے والا اپنے لئے اس وقت تک کچھ نہیں لے سکتا جب تک یہ پیداوار مملکت کے ہر شخص کی دسترس میں نہ ہو! یہی وجہ ہے کہ سر براہِ مملکت کی زندگی سادہ ہوتی ہے۔ ایک سچے مومن کی زندگی جو دوسروں کی ضروریات کو اپنی ضروریات پر ترجیخ دیتا ہے، خود تنگی میں گزارا کرتا ہے لیکن دوسرے مسلمان کے لئے کشاد کی راہیں نکالتا ہے۔
ہم نے حضور ﷺ سے بے تحاشا عشق کیا! اتنا عشق کہ شاید ہی صفحہ ہستی میں کسی اور سے کیا گیا ہو! لیکن ہم نے ان کی تعلیمات کو ایسے ہی بھلا دیا جیسا یہودیوں اور عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ اور حضرت موسیٰ کی تعلیمات میں ردو بدل کر دیا۔
اس کتاب میں تو ہم ردوبدل نہ کر سکے لیکن اس کی تعلیمات کو جان بوجھ کر بھول گئے!
ہمارے گھر میں ناہید کی فیملی کام کرتی ہے وہ مجھ سے کہتی ہے کہ میں ہر عید میلاد النبی پر کھیر کی دیگ پکاتی تھی اس دفعہ میں نے یہ دیگ نہیں پکائی تو مجھ پر بہت مشکلات آئیں۔ وہ زور دے رہی تھی کہ میں اس دفعہ دیگ ضرور پکاوں گئی، اپنا موبائل یا اپنی موٹر سائیکل بیچ کر جس کی قسطیں بھی ابھی پوری نہیں ہوئیں۔
میں نے اُس کو بہت سمجھایا کہ حضور ﷺ قیامت والے دن تمھارا گریبان پکڑیں گئے کہ میں نے کب کہا تھا کہ میری محبت میں گھر کی اشیاء فروخت کرکے خود تکلیف کا سامنا کرو! لیکن وہ یہ ماننے پر تیار نہیں ہے!
ناہید پر ہی کیا موقوف! ہم سب مسلمان حضور ﷺ کی تعلیمات کو بھلا کر اُن پر عمل کرنے کی بجائے اُن سے بے انتہا عشق کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن وہ زندگی گزارنے سے اختراز برتتے ہیں جو حضور ﷺ نے بسر کی!
انھوں نے انسانیت کو آزادی سے ہمکنار کیا۔
ایک شخص حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ مجھے ایک اچھا غار مل گیا ہے جس میں ضرورت کی سب چیزیں موجود ہیں۔ میرا جی چاہتا ہے کہ وہاں گوشہ گزیں ہو جاوں۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ میں یہودیت اور نصرانیت لے کر دنیا میں نہیں آیا۔ میں آسان اور سہل دینِ ابراہیمی لے کر آیا ہوں۔ ایک مرتبہ آپ ﷺ وضو کر رہے تھے جو پانی گرِا بعض لوگوں نے تبرکاََ اپنے بدن پر مل لیا۔ آپ نے پوچھا کہ یہ کیوں کر رہے ہو؟ عرض کیا کہ خدا اور خدا کے رسول کی محبت میں! آپ ﷺ نے فرمایا خدا اور اس کے رسول ﷺ کی محبت حاصل کرنے کا یہ طریقہ نہیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ جب بات کرے تو سچ بولے، امین بنایا جائے تو امانت ادا کرے اور کسی کا پڑوسی ہو تو ہمسائیگی کو اچھی طرح نبھائے۔
اہک دفعہ ایک شخص آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اثناءِ گفتگو میں کہا کہ "جو خدا چاہے اور جو آپ ﷺ چاہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم نے یہ کیا کہہ دیا؟ تم نے مجھے خدا کا شریک و ہمسر ٹھہرا دیا۔
غزوہ بدر میں آپ ﷺ نے میدان کا انتحاب کرکے ڈیرے ڈال دینے کا حکم دیا۔ حضرت حباب بن منظرؓ حاظر ہوئے اور عرض کیا کہ یہ فیصلہ وحی خدا وندی کی رو سے ہے یا آپ ﷺ کی رائی ہے تو حضور ﷺ نے بتایا کہ یہ میری ذاتی رائے ہے وحی خداوندی نہیں ہے۔ پھر حضرت حباب بن منظرؓ نے کہا کہ اس حکم کو بدل دیجئے کیونکہ فلاں مقام زیادہ بہتر ہے۔ چنانچہ حضور ﷺ نے ان کی رائے کو زیادہ بہتر پایا اور لشکر کو اس طرف جانے کا حکم دیا۔
غزوہ احزاب میں جب آپ ﷺ نے غطفان سے صلح کرنا چاہی تو انصار نے عرض کیا کہ یہ فیصلہ اگر خدا کا حکم تو مجال انکار نہیں، لیکن اگر حضور ﷺ کی رائے ہے تو پھر ہماری رائے اس کے خلاف ہے۔ چنانچہ حضور ﷺ نے ان کے عزم و استقلال کے پیشِ نظر اپنی رائے میں تبدیلی فرمائی۔
صحابہؓ تو ایک طرف لونڈیوں تک کو یہ جرات حاصل ہوگئی تھی کہ وہ حضور ﷺ کے ارشادات پر اسفسار کر لیا کرتی تھیں۔ بریرہ ایک لونڈی تھی جو بوجہ آزادی اپنے شوہر (مغیث) سے الگ ہوگئی تھی، حضور ﷺ نے اس سے مغیث کی درخواست پر مغیث کی زوجیت میں رہنے کی سفارش کی تو بریرہ نے عرض کیا کہ کیا آپ ﷺ حکم دے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ یہ حکم نہیں ہے تو اُس نے کہا تو پھر معاف فرمائیے، مجھے مغیث کی حاجت نہیں!
یہ جواب ایک لونڈی ایک سر براہِ مملکت اور فوج کے سپہ سالار کو دے رہی ہے!
یہ آزادی تھی جو حضور ﷺ نے غلامی میں جکڑی ہوئی انسانیت کو دی، لیکن ہم نے حضور ﷺ سے عشق تو بے انتہا کیا لیکن زندگیاں اپنی مرضی کے مطابق گزارتے ہیں۔