Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Kiran Arzoo Nadeem
  4. Apne Dushmano Ko Khud Pehchanna Hoga

Apne Dushmano Ko Khud Pehchanna Hoga

اپنے دشمنوں کو خود پہچاننا ہوگا

ہم بہت مشکل معاشی حالات سے گزر رہے ہیں۔ یہ دیکھ کر بہت تکلیف اور پریشانی ہوتی ہے۔ پاکستان کا جرم صرف یہ ہے کہ یہ "پاک وطن"، "پاک لوگوں کے رہنے کی جگہ" جو اللہ کے نام پر حاصل کی گئی ہے، اللہ کے نظام کا قیام ہی اس ریاست کا مقصد ہے۔ اس لئے ہمارے سب دشمن جو اپنوں میں سے بھی ہیں اور غیروں میں سے بھی، جو خدانخواسطہ اس کو قائم ہی نہیں رہنے دینا چاہتے، کبھی ہم پر جنگیں مسلط کی جاتیں رہیں، اب شاید کسی نیک روح نے ہمیں ایٹم بم بنا کر دے دیا، جس کے ڈر سے اب ہم پر جنگ تو مسلط نہیں کی جا سکی، لیکن اب مختلف قسم کے ڈراوے دئے جا رہے ہیں، کاش وہ سب ممالک پاکستان جب ایٹمی قوت بنا تو بہت خوش تھے، اس کا نام دنیا نے "اسلامی بم" رکھ دیا تھا۔

میری فیملی اُس وقت سعودی عرب میں تھی اور میرے ابو بتاتے ہیں کہ سعودیوں نے مٹھائیاں تقسیم کیں، کاش یہ سب دولت و حیثیت والے ممالک پھر سے پاکستان کو معاشی جنگ سے بچا لیں۔ لیکن ہمیں خود بھی اپنے لئے کچھ کرنا ہے۔ ہمیں اپنے دشمنوں کو خود پہچاننا ہوگا، جو ہم ہی میں بھی موجود ہیں اور غیروں میں تو ہمیشہ سے موجود تھے۔ اتنی بڑی ہستی کو اللہ نے کہہ دیا تھا کہ

"اگر ہمارا قانونِ مشیت ایسا ہوتا کہ ہم لوگوں کے جملہ امور وحی کے ذریعے بتا دیتے، تو ہم تمہیں بتا دیتے کہ ان میں کون کون منافق ہیں، لیکن ہم ایسا نہیں کریں گے۔ اے رسول ﷺ! تمہیں ان کی حرکات و سکنات سے خود پہچاننا ہوگا کہ ان میں کون کون منافق ہیں۔ " 30\47

اگر غور و فکر سے کام لیا جائے تو منافقین کی باتیں ان کی منافقت کی غمازی کرتی ہیں۔ لیکن جب اندھی تقلید، جزبات پرستی جیسی جہالت کا شکار ہوا جائے تو پھر صرف آنکھیں ہی اندھی نہیں ہو جایا کرتیں جو سروں پر ہیں دل بھی اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔ اگر ہم اپنے محسنوں کی قدر نہیں کریں گے تو اس کی سزا سے ہم کیونکر بچ سکتے ہیں۔ ہم نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے اتنے بڑے احسان کے بدلے میں اُن کو مجبور کیا کہ وہ میڈیا پر آ کر معافی مانگیں۔ ہمارے دشمنوں نے یہ سبق دینے کی کوشش کی کہ جو کوئی بھی اس ملک کے لئے اچھا کام کرنے کی کوشش کرے گا اس کو ایسا سبق دیا جائے گا کہ کوئی دوبارہ ایسی جرات نہ کرے۔

جب پاکستان بنا تھا تو اس وقت دفاتر میں کام کرنے کے لئے قلم اور کاغذ موجود نہ تھا، بیٹھنے کی مناسب جگہ نہ تھی، سرکاری اہلکار اپنی جیب سے کاغذ، قلم خرید کر درختوں کے سائے تلے بیٹھ کر دفتر کا کام کیا کرتے تھے۔ ایک وہ وقت تھا اور ایک یہ وقت ہے کہ شاندار دفاتر موجود ہیں اور ان میں بیٹھنے والوں کی اکثریت اس سرکاری مال کو لوٹ لوٹ کر کھا رہی ہے۔ ان افراد میں چھوٹے سے لے کر بڑے تک سب شامل ہیں۔ ججز بھی، صحافی بھی، کلرک بھی، ڈاکٹرز بھی، اساتذہ بھی، جرنیلز بھی۔

لیکن پھر بھی اِسی معاشرہ میں رب نیک روحیں بھی بھیجتا رہتا ہے۔ لیاقت علی خان وہ وزیرِاعظم تھے جو نواب خاندان سے تعلق رکھنے کے باوجود عام آدمی کی سطح پر زندگی گزارتے تھے، اور آج کل کے دور میں معراج خالد بھی گزرے ہیں جو اقتدار میں ہوتے ہوئے بھی رکشے میں سفر کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ آپ اجلاس میں شرکت کے لئے جا رہے تھے، اسی اجلاس میں جانے کے لئے وزراء کی گاڑیاں گزر رہیں تھیں اور پروٹوکول کی وجہ سے ٹریفک رکی ہوئی تھی اور معراج خالد کو جلسے میں شرکت کے لئے دیر ہوگئی۔

ایسے افراد ہم نے پارٹی کو زینت بنانے کے لئے رکھے ہوتے ہیں بس۔ کاش ہم مخلص لوگوں کی قدر کرنا بھی سیکھ لیں۔ اب تو پھر پیسہ کھانے والوں کی فہرستیں سامنے آنا شروع ہوگئیں ہیں اور انہی حالات میں چیدہ چیدہ ایماندار لوگ بھی انہیں جگہوں میں نظر آ جاتے ہیں۔

بہرحال اللہ ہمیں اب تک بچاتا چلا آ رہا ہے، لیکن آخر کب تک؟

اب ہمیں اپنے دشمنوں اور دوستوں کو خود پہچاننا ہوگا۔

Check Also

Riyasat Se Interview

By Najam Wali Khan