Ambani Ke Betay Ki Shadi
امبانی کے بیٹے کی شادی
نظامِ سرمایہ داری ہر دور میں پنپتا رہا ہے۔ اس کے برعکس اللہ کا نظام ربوبیت ہے جس کی رو سے زمین پر بسنے والا کوئی زی روح بھوکا نہیں رہ سکتا!
قرآن آخری کتاب اور حضورﷺ آخری نبی ہیں۔ انسانوں کی ہدایت کا سلسلہ مکمل ہوگیا۔ آج بھی کوئی بھی واقع رونما ہوتا ہے اس کی ہدایت ہمیں اس کتاب سے ملتی ہے اور جب خدا نے کہا تھا کہ یہ رہتی دنیا تک انسانوں کی راہنمائی کے لئے کافی ہے۔ خدا اس کتاب کے زریعے آج بھی ہم سے کلام کر رہا ہے۔
امبانی کے بیٹے کی شادی کی بہت دھوم ہے، جو کہ انڈیا کے شہر جام نگر میں منعقد ہوئی، مکیش امبانی کے بیٹے انت امبانی کی شادی سے قبل تقریبات کے لئے دس دن کے لئے جام نگر ائیرپورٹ کو انٹرنیشنل ائیرپورٹ کا درجہ بھی دیا گیا۔ مہمانوں میں مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس، فیس بک کے بانی مارک زکر برگ، مشہور گلو کارہ ریحانہ، سابق امریی صدر کی بیٹی ایوانکا، کئی ممالک کے وزرائے اعظم اور بالی وڑ کے کئی معروف اداکار شامل ہیں۔ نیو یارک پوسٹ کے مطابق مکیش امبانی کی تین روزہ شادی سے پہلے کی تقریبات ہر تقریباً 120 ملین ڈالر خرچ کئے گئے۔
نظامِ سرمایہ داری جو پیسے سے پیسہ کھینچتا ہے، جس میں محنت کرنے والوں کو تو کچھ نہیں ملتا لیکن سرمایہ دار پیسے سمیٹتا چلا جاتا ہے۔ یہ بے تحاشا پیسہ دیکھ کر دوسرے افراد احساسِ کمتری میں مبتلا ہوتے چلے جاتے ہیں اور انسانوں میں اونچ نیچ بہت زیادہ ہوتی چلی آتی ہے۔ اللہ نے شروع سے نظامِ سرمایہ داری کی مخالفت اپنی کتابوں کے زریعے کی ہے اور اس کے مقابلے میں وہ اپنا نظامِ ربوبیت پیش کرتا ہے جو آج بھی قرآن میں محفوظ ہے۔
جب میں امبانی کے بیٹے کی شادی کی خبریں سن رہی تھی تو اسی وقت میں قرآن شریف پڑھنے پڑھتے سورہ القلم کی آیت اّن کّانّ زّا مالِِ وّ بنین (68:14) پر رُک گئی۔ "بنین" کا مطلب ہے اس کے پاس جتھا بہت بڑا ہے یا لوگ بہت زیادہ ہیں۔ اُس زمانے میں قبائلی زندگی کے اندر اولاد اور قبیلہ کے افراد ہوتے تھے۔ ان کو "بنین" کہا جاتا تھا انھی افراد پر اور مال پر ان کی بڑ ھائی کا دارو مدار ہوتا تھا۔ آج کے زمانے میں جس کے پاس جتنے پیسے وہ اتنے ہی ووٹ خرید سکتا ہے۔ اس پیسے سے امیر ترین لوگ بھی آپ کے قدموں تلے ہوتے ہیں، یہی بات قرآن کہہ گیا ہے!
بدل کے بھیس پھر آتے ہیں ہر زمانے میں
اگر پیر ہے آدم، جواں ہیں لات و منات
قرآن نے (68:17) میں باغ والوں کی مثال پیش کی ہے اور اس قدر شاندار مثال ہے کہ میں سمجھتی ہوں کہ رہتی دنیا تک عقل رکھنے والے اس کو سمجھنا چاہیں تو کافی ہے۔
باغ والوں نے کہا اِز اّ قسّمُو ا لّیّصِرُ مُنھّا مُصبِحین (68:17) پھل بک گیا ہے، کل صبح ہی چلیں گے اور پھل کاٹ لیں گے۔ باغ بڑا شاداب تھا، ثمر بار تھا، پھلوں سے پودے جھکے ہوئے تھے، پھل پک گئے تھے۔ ہم اپنا پھل توڑ کر منڑی لے جائیں گئے۔ قرآن بتاتا ہے کہ باغ والے کہہ رہے ہیں کہ وّ لاّ یّستّشنُونّ 68:18 یعنی اس میں محتاج، غریب اور مسکین کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ باغ بہت بڑا ہے، پھل پکے ہوئے ہیں، یہ اسے توڑنے جا رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ غریب اور مسکین کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔
سرمایہ دارانہ ذہنیت یہ تھی۔ قارون کی ذہنیت جو یہ کہتا تھا کہ یہ میری کاریگری ہے جس کی بدولت میں نے اسے جمع کیا ہے اس میں غریبوں اور مسکینوں کا کیا ہاتھ ہے؟ باغ والوں کی طرح کے بھرے ہوئے باغات ہیں لیکن اس میں کسی محتاج اور مسکین کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ قرآن نے بتایا ہے کہ فّطا فّ علیھا طا ئف مِن ربکّ وّ ھُم نا ئمون 68:19
یہ فیصلہ کرکے کہ صبح کو جا کر پھیل کاٹ لیں گئے، وہ سو گئے اور سوتے ہی باہر سے ٹڈی دل آیا اور وہ ایسا آیا کہ فّا صّبحّت کاّ لصر یم 68:20 اس نےسارے باغ کو ایسے کر دیا جیسے کسی کھیت سے فصل کو کاٹ لیا جائے اور باقی بنجر رہ جائے۔
سورہ واقعہ 56 کی آیت نمبر 63 سے 74 میں کھیتی اُگانے والوں کو کہا گیا ہے کہ اچھے کا روباری کی طرح دیکھو کہ تمھارا کتنا حصہ ہے اور میرا کتنا حصہ لے؟ زمین کس کی ہے؟ پانی، حرارت، سورج یہ سب جو کھیتی کے لئے ضروری ہیں کس کی ہیں؟ تم اپنا حصہ خود رکھ لو میرا حصہ مجھے دے دو؟ اس جدید دور میں ماہرِ ریاضی دان سے کوئی پو چھے کہ خدا کا کتنا حصہ ہے اور کھیتی والوں کا کس قدر؟ تو بات صاف ہو جائے! خدا سے کہا گیا کہ آپ تو کہیں نظر ہی نہیں آتے، ملاقات ہی نہیں ہوتی تو آپ کو آپ کا حصہ کیسے دیں؟
اللہ کا جواب آتا ہے کہ بھوکوں کو دےدو، یہ ہم تک پہنچ جائے گا۔ کیا خدا کا حصہ 33℅ بنتا ہے، جو سال بعد ہم زکٰوة کی صورت میں نکالتے ہیں۔ زکٰوة تو مملکتِ اسلامیہ کا ٹیکس ہوتا تھا، اڑھائی فیصد سالانہ کے حساب سے؟ زکٰوة دینا بے حد ضروری ہے تا کہ مملکت کا کاروبار چلتا رہے اور جب اسلامی حکومت قائم نہ ہو تو انفرادی طور پر یہ فریضہ ادا کیا جاتا رہے جیسے آج کل دنیا میں بشمول پا کستان اسلامی نظام بہرحال نہیں ہے۔
کیا کسی بھی سرمایہ دار کے لئے اڑھائی فی صد سالانہ دینے سے اللہ کا وہ حصہ مل جاتا جو اللہ نے ہم سے مانگا ہے؟ قرآن تو کوئی بات ادھوری نہیں چھوڑتا لیکن قارون کی ذہنیت کا کیا کیا جائے جو بے پناہ دولت جمع کرنے کا اُس وقت بھی اور اس وقت بھی جواز نکال لیتی ہے!
پھر باغ والوں کی طرف آئیں وہ اپنے گھروں سے روانہ ہوئے کہ دیکھنا ایسا انتظام کہ کوئی بھوکا، محتاج نہ آ جائیں۔ ان کی عادت ہوتی ہے کہ جب پتہ لگ جائے کہ کھیتی کاٹنے گئے ہیں تو یہ ہجوم کرکے آجاتے ہیں۔ اس طرح وہ چپکے چپکے باتیں کرتے جاتے تھے کہ کوئی غریب آدمی نہ آنے پائے سورہ 68 آیت نمبر 24-23 قرآن اتنے خو بصورت انداز میں قصے کی شکل میں باغ والوں کا قصہ بیان کرتا چلا جاتا ہے کہ جب وہ باغ میں پہنچے تو ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ ہم کہیں راستہ تو نہیں بھول گئے۔ اس پر وہ سر پیٹ کر رہ گئے کہ ہمارا تو بیڑہ غرو ہوگیا 68:27 ایک شخص جو کچھ عقل مند تھا اس نے کہا کہ تم خدا کے قانون کے تابع چلو اس کے الفاظ میں فّسّبحّ بِا سمِ بِرّبک العظیم (50:74) کا عام ترجمہ یہ کرکے ہم مطمئن ہو گئے کہ تسبیح بھی پھیرا کرو 56:74۔
ہم آج بے پناہ دولت جمع کرکے تسبیح ہاتھ میں پکڑ کر مطمئن ہو جاتے ہیں کہ ہم نے تسبیح پکڑ لی ہے؟ اللہ کو دھوکا دینا آسان نہیں ہے!
اللہ نے تو تمھارے مال میں سے اپنا حصہ مانگا تھا؟ اگر ہم ایماندار کاروباری کی طرح اللہ کا حصہ اللہ کو دے دیں تو ہماری تسبیح کامیاب ہے ورنہ ہم رب کو دھوکا دیں گئے؟ ہر سرمایہ دار اِسی طرح رب کو دھوکا دیتا ہے! اور سرمایہ دارانہ نظام پنپتا ہے، پہلے کسی اور شکل میں اور اس دور میں نئی نئی شکلوں کے ساتھ! یاد رہے کہ قرآنی نظام نظامِ سرمایہ داری کا سخت مخالف ہے اور یہی وہ جنگ ہے جو حق و باطل کی جنگ ہے اس کے مقابلے میں رب کا نظامِ ربو بیت ہے جس کی رو سے تمام زمین اور اس کے وسائل نوعِ نسانی کے لئے کھے رہنا چاہیے!
اس کہ بدلے میں نظامِ سرمایہ داری ہے جس کی مخالفت حضرت نوح سے لے کر اب تک جاری ہے۔ ابو جہل کعبہ غلاف کو پکڑ کر فریاد کرتا نظر آتا ہے کہ محمد ﷺ جو دین لانا چاہتا ہے اس سے امیر اور غریب کا فرق مٹ جائے گا! یہی شکایت حضرت شعیبؓ سے کی جا رہی ہے کہ ہم نے تمھیں صرف نماز پڑھنے کی اجازت دی ہے تمھاری صلوٰت کس قسم کی ہے جو ہمارے مال کو بھی ہمیں اپنی مرضی کے مطابق خرچ نہیں کرنے دیتی!
یہی قرآنی نظام نافز کرنے کے لئے ہم نے پا کستان مانگا تھا لیکن افسوس صد افسوس یہ ملک بھی امبانی کی دولت کی طرح بہت سے سرمایہ داروں کا گھڑ بن گیا!