Saturday, 27 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Kiran Arzoo Nadeem/
  4. Ainda Naslo Ke Liye Kya Naqoosh Chor Rahe Hein

Ainda Naslo Ke Liye Kya Naqoosh Chor Rahe Hein

آئندہ نسلوں کے لئے کیا نقوش چھوڑ رہے ہیں

ہماری قوم کا مستقبل کیا ہوگا؟ جب میں یہ سوچتی ہوں تو بےحد پریشان ہو جاتی ہوں کیونکہ ہمارے نوجوانوں کے ہاتھ میں سوشل میڈیا کا ہتھیار ہے اور اس ہتھیار کو استعمال کرتے ہوئے ان کا جو جی چاہتا ہے وہ دیکھتے ہیں اور جو جی چاہتا ہے اُس پر عمل کرتے ہیں۔ انہوں نے غلط اور ٹھیک کے پیمانے وہ رکھ لئے ہیں جو اُن کے لیڈر اُن کو بتاتے ہیں، حالانکہ مسلمان تو اس لحاظ سے بڑی خوش قسمت قوم ہیں کہ ان کے پاس خدا کی بھیجی گئی کتاب اپنی اصلی شکل میں محفوظ ہے اور جو بھی اس سے راہنمائی لینا چاہے وہ اس سے راہنمائی لے سکتا ہے۔

کردار کے حوالے سے حضور ﷺ کی ذاتِ مبارک ہمارے سامنے موجود ہے جو ہمارے لئے عملی نمونہ ہے۔ کیا ہم میں مسلمان ہونے کی حیثیت سے اتنی بھی پہچان نہیں کہ ہم اپنے لیڈروں کو غلط اور درست کے کٹہرے میں کھڑا کرکے قرآن کی روشنی میں فیصلہ کر سکیں۔ اگر ہم ٹھیک نیت سے راہنمائی لینا چاہیں تو رب ہمیں ضرور راہنمائی دے گا۔ لیکن ہم سچ دیکھنا ہی نہیں چاہتے۔ ہمارے اخلاقی معیار خاص طور پر نوجوانوں کے بےحد پست ہو چکے ہیں۔ حضرت علیؓ کا وہ قول یاد آ رہا تھا جو انہوں نے حضرت عمرؓ سے اُس وقت کہا تھا جب ایران کی فتح کے بعد مسلمانوں کے ہاتھ جو مالِ غنیمت آیا تھا تو کسی سپاہی نے ایک سوئی بھی اپنے پاس نہ رکھی۔ اس پر حضرت علیؓ نے کہا تھا کہ

"آپ کی سپاہ اس لئے ایمان دار ہیں کہ آپ دیانتدار ہیں"۔

یہ تو خلافتِ راشدہ کے دور کی بات ہے۔ 1965 کی جنگ میں مجھے بھارتی وزیرِ خارجہ کے وہ الفاظ جو میں نے کتابوں میں پڑھے اس نے اپنی پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر تمام دنیا کے سامنے کہا کہ "ان سترہ دنوں میں پاکستانی فوج کے کسی سپاہی نے ہماری کسی عورت کی طرف میلی نگاہ سے نہیں دیکھا"۔ اور یہ خبر پوری دنیا کے اخبارات میں چھپی اور ہمارا دل فتوحات کے کارناموں سے اتنا خوش نہ ہوا جتنا اپنے سپاہ کے کردار کی گواہی جو کسی اور سے نہیں بلکہ خود دشمن کے منہ سے ادا ہوئی۔

اس پر جنرل ایوب کے بارے میں لاکھ باتیں کیں جائیں لیکن وہ خود باکردار تھے اور اس کی سپاہ بھی باکردار تھی اور جب کمان جنرل یحییٰ کے ہاتھ میں آئی تو اس کے کردار کے چرچے پوری دنیا میں ہوئے اور یہی بدکرداری پھر آہستہ آہستہ نیچے کے درجے میں بھی منتقل ہوگئی۔ اور پھر وہی سوال جس سے میں نے کالم کا آغاز کیا کہ ہماری قوم کا مستقبل کیا ہوگا؟ اس کا جواب بھی مجھے خدا کی کتاب نے دے دیا۔ مجھے اس کا یقین ہے کہ اس کتاب میں ہر سوال کا جواب موجود ہے۔

میں قرآن پڑھتے پڑھتے اس آیت پر رُک گئی کہ وُنُکتبُ مُا قُدُمُو وُ اُثُارُھُم۔

"ہم لکھتے جاتے ہیں ان کے سارے اعمال جو اُنہوں نے مستقبل کے لئے کیا کیا اور پیچھے سے آنے والوں کے لئے کیا نقشِ قدم چھوڑے۔ "

مُا قُدمُو ہوتا ہے کہ انہوں نے مستقبل کے لئے کیا کیا اور وُ اُثاُرُھُم ہے کہ وہ پیچھے آنے والوں کے لئے کس قسم کے نقشِ قدم چھوڑ رہے ہیں۔

ان دو الفاظ سے آپ کو سمجھ آ گیا کہ اسلامی مملکت کا آئین کیا کہے گا؟ اس کے کیا مقاصد ہو نگے۔ اس کے مقاصد ہیں کہ جو اعمال ہمارے ہوتے ہیں وہ قانونِ مکافاتِ عمل کے رجسٹر میں درج کر دیئے جاتے ہیں اور اللہ ان کو محفوظ کر دیتا ہے وہ نتائج جو ہمارے اپنے اعمال ہی کا نتیجہ ہونگے ہمارا مستقبل کا تعین کریں گے اور وہ بھی جو ہم آنے والی نسلوں کے لئے چھوڑ جاتے ہیں وہ بھی محفوظ ہو جاتے ہیں۔ ان اعمال کو آئندہ آنے والی نسلیں بطور نمونہ دیکھیں گی۔ ہم پر کتنی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

یہاں پر رُکیں اور سوچیں کہ ہم اپنے مستقبل کے لئے کیا کر رہے ہیں اور اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے کیا نقوش چھوڑ رہے ہیں؟ جو اخلاقیات کے معیار ہم نے خود ہی بنائے ہیں وہ آنے والی نسلوں کے لئے کیا نقوش چھوڑیں گے؟

سوچیئے گا، ضرور۔

نشان یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا

کہ صبح و شام بدلتی ہیں ان کی تقدیریں

Check Also

Nineties Ke Ashiq

By Khateeb Ahmad