Absolutely Not
ابسلوٹلی ناٹ
میری بیٹی فا طمہ اپنے بابا سے پوچھ رہی تھی کہ با با! عمران خان تو وزیرِ اعظم بن گئے ہیں تو پھر دھرنا کیوں دے رہے ہیں؟ 27 مارچ کے جلسہ کو وہ دھرنے کا نام دے رہی تھی۔ عمران خان کی پونے دو گھنٹے کی تقریر میں بڑ ے غور سے سن رہی تھی جو ان کی 23 سالہ سیاسی زندگی کا نچوڑ تھی۔ مجھے بڑے غور سے تقریر سنتے دیکھ ہوئے دیکھ کر اُ س نے مجھ سے پوچھا کہ آپ دوبارہ تو عمران خان کو ووٹ دینے کا نہیں سوچ رہیں اس کو صرف یہ غم ہے کہ اس کی bounty جو پہلے 60 یا 70 کی تھی اب 100 کی ہو چکی ہے آٹے گھی کی قیمتوں کا اس کو کیا پتہ عمران کی تقریر میں دنیا بھر کی کامیا بیاں جھلک رہی تھیں۔
ان کی تقریر سے یہ تاثر مل رہا تھا کہ پاکستان کو قائدِ اعظم ثا نی مل گیا ہے تو مجھے قائدِ اعظم کی زندگی کے کچھ وا قعا ت یاد آگئے۔ قائدِ اعظم کی زندگی میں مفاہمت نظریہ ضرورت کمپرو ما ئیز ان کی لغت میں تھے ہی نہیں قائدِ اعظم کو وائسرائے نے ملاقات کے لئے بلایا۔ گیارہ بجے کا وقت مقرر ہے۔ قائدِ اعظم وقت کے بڑے پابند ہوا کرتے تھے۔
گیارہ بجے کا وقت معلو م ہے لیکن بیٹھے ہوئے ہیں ادھر سے گھنٹی پر گھنٹی آرہی ہے کہ آئے کیوں نہیں ؟ خود نہیں جواب دے رہے پرائیوٹ سیکٹری کو کہتے ہیں کہ ان سے کہو کہ میں اپنی convenience پر آ وں گا وقت لگے گا وائسرائے کو جواب دیا جا رہا ہے۔ سو ا گیارہ بجے پہنچے۔ ہمارے اور آپ کے نز دیک یہ بات آج چھوٹی سی ہے۔ لیکن آپ اس نزاکت کو سامنے رکھیں کہ وہ وائسرائے ہے او ر ملاقات کا وقت مقرر ہے۔
جب آپ پہنچے تو وائسرائے نے کہا کہ یہ جو بار کونسل کا قصہ ہے اس میں کچھ وضاخت کرنا چا ہتا ہوں۔ قا ئدِ اعظم کھڑے ہوئے اور کہا کہ مجھے آپ کی وضاخت کی ضرورت نہیں۔ اس واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے بخشو پنڑت (پنڑت نہرو کی بہن) نے کہا کہ اگر کانگرس کو قائدِ اعظم جیسا ایک لیڈر مل جائے تو انگریز سے لڑائی آج جتم ہو سکتی ہے۔ اس وقت جب تمام ہندو لیڈر وائسرا ئے کی چا بلو سی کر رہے تھے اس کو بہترین انگلش جنٹلمین اور بہترین عیسائی جنٹلمین کے خطا بات سے نواذ رہے تھے اس وقت قائدِ اعظم نے اس کو بتایا کہ وہ وائسرائے کو کیا سمجھتے ہیں۔
ایک اور واقع absolutely not سے یاد آگیا کہ حقیقی absolutely not کہنے والے کون تھے۔ ہندوؤں کے مقابلے میں کلکتہ چیمبر ز میں ایک سیٹ تھی جو کہ ٹیسٹ تھا اس بات کا کہ وہاں مسلمانوں کی strength کتنی ہے۔ اسفہانی وہاں سیٹ کے لئے کھڑے ہوئے بلا مقا بلہ کھڑے ہوئے انتحاب کے عین دو دن پہلے ایک اور شخص بھی کھڑا ہو گیا۔
انہیں فکر ہوئی کہ اب ووٹیں بٹ جائیں گئں۔ عبد الرحمنٰ صدیقی ان کے سا تھی تھے۔ ، وہ ایک شام آئے۔ اسفہانی نے خود اپنی کتاب میں اس واقعہ کو لکھا ہے۔ کچھ آہستہ آہستہ آپس میں باتیں کر رہے تھے قائدِ اعظم دور بیٹھے تھے کہا کہ زرا قریب آکر مجھ سے بھی بات کرو۔ انھوں نے بتایا کہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ اسفہانی کے مقابلے میں جو امیدوار کھڑا ہوا تھا اس کے ساتھ بات ہو گئ ہے۔
اس نے کہا ہے کہ اگر میری ضمانت کا روپیہ آپ دے دیں تو میں بیٹھ جا تا ہوں۔ اسفہا نی بلا مقا بلہ کامیاب ہو جائیں گے۔ آپ نے سنا اسفہانی لکھتے ہیں کہ غصہ کہ مارے چہرہ سرخ ہو گیا کہا کہ فریقِ مخا لف کو زر ضمانت واپس دے کر بٹھا دینا یہ بلا واسطہ رشوت نہیں تو اور کیا ہے جا وّ اور اس سے کہہ دو کہ ہمیں یہ منظور نہیں ہم مقا بلہ کریں گئے ہم نا کا م رہ جائیں گئے لیکن ہم رشوت دے کر نہیں جیتیں گئے۔ اس وقت ایک ایک سیٹ نہیں ایک ایک ووٹ قیمتی تھا۔ اس کے بعد انھوں نے جو اُ صول بیان کیا وہ سنہاری خروف سے لکھنے کے قابل ہے۔
میرے عزیز دوستو! یاد رکھو پبلک لا ئف میں دیانت پرا ئیوٹ لا ِف سے بھی زیادہ اہم ہوتی ہے۔ پرائیویٹ لا ئف میں بد دیانتی سے کسی ایک شخص کو نقصان پہنچتا ہے لیکن پبلک لائف میں بد دیانتی سے لا تعداد انسان مجروح ہوتے ہیں۔ اور اس سے ہزاروں ایسے لوگ بے راہ ہو جاتے ہیں جن پر آپ کا اعتماد ہوتا ہے یاد رکھنا سیاست میں کسی مقام پر بھی ایسا نہ کرنا کہ اُ صو لوں کو چھوڑ کر کوئی جیز خرید لو۔ میرے وہ تمام دوست جو پاکستان اور عمران خان سے محبت کرتے ہیں ان کو اب شاید absolutely not کا مطلب سمجھ آ گیا ہو گا۔