Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Kiran Arzoo Nadeem
  4. Ab Hai Kaam Hamara

Ab Hai Kaam Hamara

اب ہے کام ہمارا

دو تین دن سے میں خان صاحب کے اس جملے پر بے حد دُکھی تھی۔ اس جملے نے نہ صرف مجھے بلکہ پورے پاکستان کو تکلیف پہنچائی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ن لیگ کو حکومت دینے سے بہتر تھا کہ پاکستان پر بم گرا دیا جاتا۔ یہ سن کر میرا کلیجہ منہ کو آ گیا۔ اتنی بڑی بات کرنے کا حوصلہ خان صاحب کو کیسے ہو گیا؟ اتنی خود غرضی کہ اگر وہ نہیں تو کوئی بھی نہیں؟

خان صاحب یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ جتبے ان کے سپوٹرز ہیں اتنے ہی دوسری جما عتوں کے بھی ہیں، وہ بار بار سب لوگوں کی دل آزاری کیوں کرتے ہیں؟ اس وقت تو انہوں نے بم گرانے والی بات کر کے تو حد ہی کر دی، یہ ان کی اس نفسیات کی عکاسی کرتی ہے جس میں خود غرضی، خود پسندی کے عناصر کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے ان کے بچے اور ان کا مستقبل تو یورپ میں محفوظ ہے، پاکستان تو ان کو چاہیے پاکستانیوں پر حکومت کرنے کے لئے۔

اس پاکستان نے انہیں عزت دی، اس پاکستان کی طرف سے کرکٹ کھیلتے ہوئے انہیں شہرت ملی، ان کی پہچان پاکستان تھی، وہی پاکستان جس کا انہیں وزیرِاعظم بنایا گیا جس کے سرکاری ہیلی کاپٹر پر بیٹھ کر وہ عیاشیاں کرتے پھر رہے ہیں، جس ہیلی کاپٹر کا خرچہ ایک عرب کے قریب تھا۔ خان صاحب اپنے کسی اعمال اور اپنی کسی کارگردگی کا جواب دینا اپنی توہین سمجھتے ہیں، وہ حکومت سے نکل کر اتنے کم ضرف ہو سکتے ہیں کہ اقبال اور قائدِاعظم کے پاکستان کو بد دعائیں دینے پر اتر آئے۔

میں بچوں کو سکول چھوڑنے جا رہی تھی تو گاڑی میں Fm پر قومی ترانہ لگا ہوا تھا جو میں بچپن سے لے کر اب تک ہزاروں بار سن چکی تھی لیکن خان صاحب کے جملے نے اتنا دکھ دیا کہ ترانے کی یہ سطریں سن کر میری آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔ یہ سطریں کچھ یوں تھیں۔

جھیل گئے دکھ جھیلنے والے

اب ہے کام ہمارا۔

دکھ جھلینے والے ہمیں یہ ملک دے کر چلے گئے، اب آگے ہمارا کام تھا اور ہم کیا کر رہے ہیں؟ کیا ہم نے اپنا کام کیا؟ الٹا آنے والی نسلوں کو اس ملک کے ہی خلاف کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہ مت بھولیں کہ آپ صرف پاکستان کے وزیرِاعظم بن سکتے تھے یا بن سکتے ہیں، جس کی اُمید آپ کی حرکتوں کی وجہ سے تقریباً ختم ہوتی جا رہی ہے۔ جب پاکستان بنا تھا اس وقت سرکاری دفاتر میں کام کرنے کے لئے کوئی سٹیشنری موجود نہ تھی بیٹھنے کے لئے کوئی جگہ نہ تھی، درختوں کے نیچے بیٹھ کر اور بازار سے قلم اور کاغذ خرید کر دفتروں کے کام کیے جاتے تھے۔

سرکاری ملازموں کو دینے کے لئے تنحواہ تک نہ تھی۔ ان حالات میں الله نے پاکستان کو چلایا اور اب تک باقی رکھا ہوا ہے، مشکل ہے بہت مشکل لیکن اس وقت سے زیادہ نہیں جب ہمارے پاس تنحواہ دینے تک کے پیسے نہیں تھے۔ اس مشکل میں اس طرح کے جملے جو فساد سے بھرپور ہیں، جو دشمن کا کام آسان کر رہے ہیں، دشمن خود کہہ رہا ہے کہ جو کام ہم 70 سالوں میں نہ کر سکے وہ کام خان صاحب نے دنوں میں کر دیا۔

قوت اگر

لاریں ہو تو زہرِ ہلاہل سے بھی بڑھ کہ

ہو دین کی حفاظت میں تو ہر زہر کا تریاق

خان صاحب کی قوت زہرِ ہلاہل سے بڑھ گئی ہے۔

اس لئے اب ہمیں یاد رکھنا ہے کہ

دکھ جھیل گئے دکھ جھیلنے والے

اب ہے کام ہمارا۔

Check Also

Elon Musk Ka Vision

By Muhammad Saqib