Aafeen Anin Naas
عافین عنّ الناس
کافی دنوں سےاس بات کی ضرورت شدت سےمحسوس ہورہی تھی کہ جو بدتہزیبی کاطوفان سوشل میڈیااورہماری سو سائیٹی میں آیاہواہےاس پربات کی جائے۔ حساس لوگ ان باتوں سےمتاثرہوتےہیں۔ اپنی چھوٹی بہن ستارہ کودیکھ کریہ کالم لکھنےکاخیال آیا جوان بدتہزیبیوں کودیکھ کرگھنٹوں کڑھتی رہتی ہے۔
معاشرہ میں مختلف قسم کےلوگوں سےواسطہ پڑتا ہے"ہماراروزمرہ کاتجربہ ہےکہ کچھ ایسےلوگ بھی ہوتےہیں جو کمینہ خصلت ہوتےہیں وہ باہمی معاملات میں پست سطح پراترآتےہیں۔ اس کاتجربہ ہم میں سےتقریباّسب کواکثرہی ہوتارہتاہے۔ آج کل سوشل میڈیاکادورہے "ہر کوئی اپنی پسند اور مرضی کی پوسٹ کو share کرتا ہے جو اس کا حق ہے۔
اس post پر انتہا ہی فضول قسم کے comments دیئے جا تے ہیں جو دیکھ کر میں اس قدر پریشان ہو جاتی ہوں کہ ہم اخلاقیات کی کس سطح پر جا رہے ہیں۔ پا کستان میں مختلف پارٹیاں ہیں آدھے لوگ ایک پارٹی اور آدھے دوسری پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں "ہر ایک کی اپنی جزبا تی وابستگی ہوتی ہے"ہمیں دوسروں کی پسند یا نا پسند پر اپنی رائے دینے کا کوئی حق نہیں ہے" "قرآن میں ہے کہ آپ کفار کے بتوں کو بھی برا نہ کہیں کیونکہ اس سے ان کی دل آزاری ہوتی ہے۔ یہ ہے ہمارا دین!
لیکن مجھے لگتا ہے جس طرح کا نگرس کے مسلمان اور مسلم لیگ کے مسلمان آپس میں لڑا کرتے تھے "کانگرس کے مسلمانوں کے پاس اس وقت کے ملا تھے جو مسجدوں میں بھی اس بات کا پرو پیگنڑہ کیا کرتے کہ ہندو ستان میں ہمیں تمام مزہبی آزادی حاصل ہے اس لئے پا کستان بنانے کی ضرورت نہیں۔
سوچیں قائد اعظم کوکن کن محاذوں پرلڑناپڑتاتھا"کانگرس کےمسلمان اورمسلم لیگ کےمسلمانوں میں اسی قسم کی لڑائیاں ہواکرتی تھیں تھیں جس طرح آج کل PTI اور دیگرجماعتوں کےدرمیان ہورہی ہیں "ہرکوئی اپنےآپ کوحق پر سمجھ رہاہوتاہے۔ مسلم لیگ کے لیڑر قائدِ اعظم تھے اوران کو یہ کمال حاصل تھاکہ محتلف فرقوں سے تعلق رکھنے والےمسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پراکٹھاکردیاتھا۔
ایک دفعہ ایک علماءکاگروہ قائد اعظم کے پاس آیا کہ آپ نمازکی امامت کروائیں۔ لیکن قائدِ اعظم اس کے لئےتیارنہ ہوئےکہ میں اپنےآپ کواس کا اہل نہیں سمجھتا"۔ قائِد اعظم کی صحت نےان کومحلت نہ دی ورنہ مختلف فرقےشاید اکٹھےہوجاتے"کاش!
میری چھوٹی بہن ستارہ جب اپنےاردگرد بداخلاقی، بدزبانی اورگالی گلوچ دیکھتی ہے توحد درجہ پریشان ہوجاتی ہےروزانہ اس موضوع پربات ہوتی ہےکہ آخرہمارےاخلاق اس درجہ پست کیوں ہوتےجارہےہیں۔ واقعی ہم نےصرف طوطےپڑھانےہیں، نصاب یادکروایاہے۔ تربیت نہیں کرسکے۔
خدانےاپنی کتاب کےزریعےہماری رہنمائی ہرشعبہ میں کر دی۔ میں صبح قرآن شریف پڑھتے ہوئے ایک آیت پررکی اور مجھےاپنےرب کی طرف سےجواب مل گیا اورسکون بھی کہ یہ سب اول فول سن کر کیا کیا جائےمومنین کی ایک خصوصیت یہ بتائی گئی ہے "عافین عنِ الناس" اس کا عام ترجمہ یہ کیا جاتا ہے کہ وہ لوگوں کو معاف کر دیتے ہیں۔
معاف کردینےکےمطلب سےحقیت نکھرکرسامنےنہیں آتی "عربی لغت میں " العفو" سےمرادوہ سلوک برتاؤ ہےجو معاشرہ میں دوسرے افراد سے کیاجاتاہے۔ عفوکےمعنی ہوتےہیں کسی ناپسندیدہ بات کوزیادہ اہمیت نہ دینا اورایسے لوگوں سےالجھے بغیر آگےبڑھ جانا۔ جو لوگ باہمی معاملات میں پست سطح پراتر آتے ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ ایسے لوگوں کے ساتھ الجھنے کےبجائے اپنا دامن بچا کر شریفانہ انداز سے آگے بڑھ جاؤ۔
کتنی بڑی بات ہمارے رب نے ہمیں سمجھا دی!
قائدِ اعظم کے بارے میں علماء کہا کرتے تھے
ایک کافرہ کے واسطے اسلام کو چھوڑا
ہے یہ قائد اعظم یا کافرِ اعظم
علامہ اقبال پر کفر کے فتویٰ لگانے گئے اور سر سید سید احمد خان نے صرف یہ کہا کہ نیچر کی قوتوں کو مسخر کرو تو ان کے لئے فتویٰ صادر کر وائے گئے کہ وہ نیچری اور ملحد ہیں!
ہم تو بہت معمولی لوگ ہیں!
اصل وہی قرآن کی راہنمائی کہ ایسے لوگوں سے دامن بچا کر شریفانہ انداز سے آگے بڑھ جا یا جائے!