Zoo Kahani
زوو کہانی
بھانجے بھتیجوں کو گھر میں باندھ باندھ جب عاجز آ گئے تو انہیں گھمانے پھرانے کا سوچا۔۔ بچوں نے شور ڈال دیا کہ ہمیں zoo جانا ہے۔۔ ہم بہن بھائیوں کا خیال تھا انہیں تھکا تھکا کر لے آئیں گے تو بچے آتے ہی سکون سے سو جائیں گے۔ یہ اور بات ہے کہ بچے گھر آکر ویسے ہی ہشاش بشاش فساد فی الارض کرتے رہے۔ ہم البتہ تھک کر نڈھال تھے۔۔
تو بات ہو رہی تھی لاہور کے زوو کی۔۔ ہم جہاں رہتے ابو اسے لاہور تسلیم ہی نہیں کرتے اور سو بار سنوایا بھی۔۔ کہ تم بہن بھائی جن سوسائٹیوں میں رہتے ہو یہ لاہور کے مضافات ہیں لاہور بالکل نہیں۔۔ اصل لاہور تو بادشاہی مسجد کے آس پاس ہے۔۔ ابو کی پرانے لاہور سے یہ عقیدت دیکھ کر کر لاہور سفاری جانے کا ارادہ ترک کر دیا اور اندرون جانے کا فیصلہ کیا۔۔
گوکہ میرا اندرون لاہور دیکھنے کا کوئی پہلا تجربہ نہیں۔۔ لیکن اتوار والے دن دیکھنے کا پہلا تجربہ ضرور تھا۔۔
زوو میں پہنچے لوگوں کی اتنی بڑی تعداد دیکھ کر میرا تو دل بند ہونے لگا۔۔ رش ہوگا یہ تو اندازہ تھا۔۔ لیکن اتنا رش۔۔ خدا کی پناہ۔۔ یوں لگ رہا تھا ہر کونے کھدرے سے نکل نکل کر اس پارک میں جمع ہو رہے۔۔
جانوروں کے پنجرے تو موجود تھے لیکن جانور نہیں نظر آرہے تھے۔۔ غالباََ اتنے لوگ دیکھ کر یہ بھی وحشت کا شکار تھے اور منہ چھپائے دبکے پڑے تھے۔۔ ابو اور امی زرافے کے مضافات میں بیٹھ گئے کہ آپ لوگ گھوم پھر لیں۔۔ ہم یہی بیٹھے ہیں۔۔ زرافے کو جاتے وقت دیکھا تب بھی کھا رہا تھا۔۔ واپسی پر دیکھا تب بھی کھا رہا تھا۔۔ یقیناََ کسی ڈپریشن سے گزر رہا تھا ورنہ اتنا کیوں کھاتا؟
شیر سے لے کر دریائی گھوڑے تک۔۔ گینڈے سے لے کر بن مانسوں اور ریچھ تک سب کے سب روپوش تھے۔ جو چند ایک نظر آرہے تھے۔ وہ بھی آنکھیں موندے منہ چھپاے لیٹے پڑے تھے۔۔
سفید گینڈا اندر غار نما جگہ میں چھپ کر کھڑا تھا۔۔ جھاتی مار کر دیکھتا اور خفگی سے واپس مڑ جاتا۔ ظاہر ہے اس قدر لوگ دیکھ کر اسے بھی انزائٹی ہو رہی تھی۔۔ لوگوں نے گارڈ کی منت سماجت کی کہ اسکو کسی طرح باہر نکالو۔ گارڈ غار کے قریب گیا اس نے بھی ہر کوشش کرکے دیکھ لی۔۔ گینڈے نے باہر آنے سے صاف انکار کر دیا۔۔
دریائی گھوڑے نے جونہی لوگوں کو اپنے قریب آتے دیکھا۔۔ بھرپور سانس لے کر آکسیجن جمع کی اور پانی میں دبک گیا۔۔ اب بس ہمیں ایک پتھر نما پیٹھ نظر آرہی تھی۔۔ دس سے پندرہ منٹ کھڑے رہے۔۔ موصوف بے حس و حرکت پانی میں پڑا رہا۔۔
اوپر سے بہن کا اصرار کہ میں اپنے بچوں کو ہپو دکھائے بغیر نہیں جاونگی۔۔ لیکن میری بہن تھی ہپو کی نہیں۔۔ لہذا بے زاری سے چھپا رہا۔۔
بہن نے ادھر ادھر کوئی چھوٹا سا پتھر تلاش کرنا چاہا کہ اس ہپو کے آرام میں خلل ڈالا جا سکے۔ اس نے پتھر ڈھونڈ بھی لیا۔۔ لیکن انتظامیہ کے بندے نے منع کردیا۔۔ کہ ہپو کو تنگ نہ کیا جائے۔۔ ظالم تھا وہ بھی۔۔ ورنہ اس کنکریٹ کے جانور کا اتنا سا پتھر کیا بگاڑ لیتا۔۔ بہن اپنے بچوں کو تو دیدار کرا دیتی۔۔ پرندوں کے پنجروں میں عام سے چڑیاں لالیاں قید تھیں۔۔ یہاں یہ نایاب ہوتی ہونگی۔۔ ہمارے ہاں تو ان کو کوئی پوچھتا تک نہیں۔۔
ایک بہت بڑے پنجرے میں دو تین مریل سے بندر بیٹھے تھے۔۔ انسانوں کے اس ہجوم کو دیکھ کر بیزاری ان کی بھی شکلوں پر درج تھی۔۔ یہ زوو اتنا چھوٹا تھا کہ شروع ہوتے ہی ختم ہوگیا۔۔ اپنے بہاولپور کے زوو کی صحیح معنوں دل سے قدر محسوس ہوی۔۔ جس کا خالی رقبہ ہی پچیس ایکڑ پر مشتمل ہے۔۔
یہاں سے نکلے۔۔ بچوں کو مینار پاکستان دکھانا چاہا۔۔ گیٹ سے اندر نظر ڈالی ہڑبڑا کر پیچھے ہٹے۔۔ یا خدا اتنے لوگ؟
اس پارک میں عوام کا جمِ غفیر تھا۔۔ اندر جانے کی ہمت ہی نہ ہوی یہاں ہم گیٹ سے ہی واپس پلٹے۔۔ بادشاہی مسجد کی طرف رخ کیا تو یہاں بھی جوق در جوق قافلوں کی صورت جا رہے تھے۔ وہاں بھی مزید آگے جانے کو حوصلہ درکار تھا جو ہمارا بہرحال ختم ہوچکا تھا۔۔
لاہور کی حالتِ زار پر ترس بھی آیا۔۔ آلودگی میں پہلے نمبر پر کیوں ہے یہ وجہ بھی بخوبی سمجھ آ رہی تھی۔۔
قصہ مختصر۔۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اتوار والے دن اندرون لاہور جانا بہت بڑی بے وقوفی ہے۔