Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Kiran Khan
  4. Zinda Lash

Zinda Lash

زندہ لاش

ایک مرتبہ امی کے ساتھ بازار جانا ہوا۔۔ ہم ایک شاپ میں داخل ہوے جہاں سے امی ہمیشہ میرے بھائیوں کی پینٹس شرٹس لیتی تھیں۔۔ دکاندار کری ایٹو بندہ تھا اس نے ایک کاونٹر میں فش ایکویریم سیٹ کرایا ہوا تھا۔۔ بڑا خوبصورت ایکویریم میری توجہ اپنی جانب کھینچ چکا تھا۔

میں بے ساختہ اس طرف بڑھی۔ اس ایکویریم میں انوکھی بات یہ تھی کہ مچھلیوں کے علاوہ ایک عدد درمیانے سائز کا کچھوا بھی کونے میں بیٹھا ہوا تھا۔۔ میں نے شاپ والے بھائی سے اجازت لے کر اس ایکویریم کی تصویریں بنا لیں۔۔ دکاندار تھوڑا خوش نظر آنے لگا۔۔ اس کی کری ایٹیوٹی کو تصویر بنانے کی صورت میں خراج تحسین جو پیش کیا تھا۔۔

تصویر بنانے کے بعد کچھ دیر میں غور سے ایکویریم کو دیکھتی رہی۔۔ اور پر سوچ نظروں سے دکاندار سے سوال کیا۔۔ " بھائی یہ کچھوا پلاسٹک کا ہے نا؟"

دکاندار نے پرجوش انداز سے انکار میں سر ہلایا" نہیں بہنا یہ اوریجنل کچھوا ہے"۔

میں نے مزید غور سے کچھوے کا جائزہ لیا یہ دم سادھے پڑا تھا۔۔ "آپ مجھے بے وقوف نا بنائیں یہ زندہ سلامت ہوتا تو ہلتا جلتا تو سہی"۔

"بہنا یہ زندہ سلامت ہے یقین کریں۔۔ ویسے ہی سکون سے پڑا ہے" دکاندار کے لہجے میں ٹھوس اصرار تھا۔۔

اب میں نے باریک بینی سے جائزہ لیا۔۔ کچھوا ہنوز مراقبے میں تھا۔۔ حد یہ کہ آنکھیں بھی اسکی بند تھیں۔۔ میں نے تپانے والی مسکراہٹ سے دکاندار کو دیکھا۔۔

"آپ مجھے پاگل نہیں بنا سکتے یہ پلاسٹک کا کچھوا ہی ہے"۔

دکاندار کو کچھوے کی یہ ہتک منظور نہ تھی۔۔ لہذا یہ آگے بڑھا "ابھی آپ کو دکھاتا ہوں۔۔ "

کچھوے والی سائیڈ سے اس نے شیشے کو ہولے سے تھپتپایا۔۔ کچھوا نہ ہلنا تھا نا ہلا۔۔ زرا زور سے تھپڑ مارا۔۔ اس کی جان پر پھر بھی فرق نا پڑا۔۔

"اس کو نیند آئی ہوگی اس لیے نہیں اٹھ رہا۔۔ " اس نے ایک اور صفائی دی۔۔

میں نے کوئی جواب تو نا دیا لیکن میرے چہرے پر صاف لکھا تھا کہ کچھوا نقلی ہے۔۔

دکان دار غالباً انا کا مسئلہ بنا چکا تھا ایک طرف گیا واپس آیا اس کے ہاتھ میں مچھلیوں کی خوراک تھی۔ فاتحانہ انداز میں ایکویریم کی طرف آیا۔۔ " اب دیکھنا سسٹر۔۔ یہ کھانا کھانے ضرور اٹھے گا"۔

یہ کہہ کر اس نے وہ خوراک ایکویریم میں ڈال دی۔۔

مچھلیاں کھانے پر ٹوٹ پڑِیں۔۔ کچھوے نے سر اٹھا کر دیکھا تک نہیں۔۔

دکاندار جھنجھلاہٹ سے اب کچھوے کو دیکھنے لگا۔۔ "یہ کھانا کیوں نہیں کھا رہا؟"

"کیونکہ پلاسٹک کا کچھوا کھانے پینے سے بے نیاز ہوتا ہے" میں نے مسکراتے ہوے لقمہ دیا۔

اب وہ بے بسی سے کچھوے کو دیکھ کر رہ گیا۔ ہم جتنی دیر دکان میں رہے۔ دکاندار کی نظر بار بار کچھوے پر پڑتی رہی کہ شاید حرکت کر رہا ہو۔۔ اور وہ مجھے دکھا کر سرخرو ہو سکے۔۔

امی کی خریداری مکمل ہوچکی تھی۔۔

جانے سے پہلے میں نے ایک بار پھر ایکویرم کو دیکھا۔۔ کچھوا ڈھٹائی سے پڑا تھا۔۔

"یہ الو کا پٹھا زندہ ہے" دکاندار بھائی نے دانت پیستے ہوے شیشے پر ایک دھموکا جڑا۔۔

میں ہنستے ہوے دکان سے باہر نکل آئی اب اسے کیا بتاتی کہ میں جان چکی تھی کچھوا واقعی میں زندہ تھا۔۔

Check Also

Aag Lage Basti Mein, Hum Apni Masti Mein

By Rauf Klasra