Waqt Wohi Acha Tha
وقت وہی اچھا تھا
صاحب اپنے بچوں کو اعلی تعلیم دینے کا بہت شوق رکھتے ہیں۔۔ اسی مقصد کے حصول کے لیے ہمیں لاہور شفٹ کرنے کے بعد لاہور میں چھان پھٹک کرکے اپنا بزنس لانا چاہتے تھے۔ انہوں نے یہی سوچا تھا۔۔ لیکن میں نے نوٹ کیا وہ اپنا جما جمایا بزنس لاہور میں لانے سے جھجک رہے تھے۔۔ کئی قسم کے خدشات بھی ہوتے۔۔ اپنے شہر اپنے والدین۔۔ اپنے کلائنٹس اپنا ماحول چھوڑنے کی جھجک۔۔ یا نئی جگہ کاروبار نہ چلنے کا خوف انہیں سوچنے پر مجبور کررہا تھا۔۔
مہینے میں دو تین چکر بچوں کے پاس لگا لیتے تھے۔ لیکن انکی رہائش بہاولپور میں ہی تھی۔۔
خیر اسی سوچ بچار میں تھے کہ دو دن پہلے انکی طبیعت کچھ خراب ہوی۔۔ گھبراہٹ۔۔ ٹھنڈے پسینے۔۔
انہیں لگا گرمی کی وجہ سے ہو رہا۔۔ لیکن ایسا نہیں تھا۔۔ دل میں کھچاو یا درد کی کیفیت پیدا ہونے لگی۔۔ اس چیز نے انہیں الرٹ کردیا۔ ہسپتال پہنچے فوراََ ٹریٹمنٹ دی گئی۔ ای سی جی وغیرہ سے پتہ چلا انہیں۔۔
ہارٹ اٹیک ہوا ہے۔۔
اللہ کا بہت بڑا کرم یہ ہوا تھا کہ بروقت ہسپتال سے ٹریٹمنٹ ملنے پر اس اٹیک کے جان لیوا حملے سے بچ گئے۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر کہ اب بہتر ہیں۔۔ دو ہفتوں بعد انجیو گرافی ہوگی۔۔ تب مزید علاج کیا جائے گا۔۔
میرے لیے یہ دل دہلا دینے والی صورتِ حال تھی۔۔ خصوصاََ جب سوشل میڈیا پر ہر طرف کارڈیک اریسٹ کی خبریں ہی دیکھ رہی تھی۔۔
دو دن دماغ ماوف رہا۔۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی یوں لگتا ختم ہوگئی ہے۔
بچوں کی طرف دیکھتی۔۔ کلیجہ منہ کو آتا۔۔ ان کو تو اڑنے کے لیے پر ہی باپ نے فراہم کیے ہوے۔۔ ابھی تو اڑان بھرنی سیکھ رہے۔۔
کیا اللہ پھر سے مجھے کسی آزمائش کے لیے چن رہا ہے؟
یہ خیال ہی سوہانِ روح تھا۔۔
تیسرے دن دماغ نے کام کرنا شروع کیا۔۔ پہلا کام یہ کیا کہ والد صاحب کو کال ملای۔۔
ابو ہمیں واپس بہاولپور آنا ہے۔۔ مجھے یہاں نہیں رہنا۔۔
صاحب کو کاروبار لاہور لانے کو کہنا بھی اب مناسب نہیں لگ رہا تھا۔۔ کیونکہ کوئی بھی نئی پریشانی انکی صحت کے لیے ٹھیک نہیں۔۔
میرے لیے خوشی کی بات یہ بھی تھی کہ میرے بچے بھی اس فیصلے میں میرے ساتھ تھے۔۔
مما ہم بابا کے پاس جایں گے۔۔ ہمیں یہاں نہیں رہنا۔۔
حالانکہ انکی طرف سے کچھ خدشات مجھے دل میں ضرور تھے کہ لاہور آنے اور یہاں آسائش بھری زندگی حاصل ہونے کے بعد یہ واپس جانے پر دل سے راضی ہونگے یا نہیں؟
لیکن بچوں نے مجھے سنبھالا اور حوصلہ بھی دیا۔۔ بیٹی کی پڑھائی کب کی شروع ہوچکی ہے۔۔ یہ اپنے ماموں کے پاس رہے گی۔۔ بیٹے کا البتہ ابھی یونیورسٹی میں ایڈمیشن کرانا تھا۔۔ وہ اسلامیہ یونیورسٹی میں پڑھنے پر بخوشی راضی ہوگیا۔۔ کہ میرا بابا کے ساتھ ہونا زیادہ ضروری ہے۔۔
میں شاید ایک آدھ مہینہ ہی یہاں رہوں۔ معاملات سمیٹ کر واپس چلی جاونگی۔۔
چند دن پہلے میں نے ایک تحریر لکھی تھی۔۔ اپنا ایک گلٹ شئیر کیا تھا۔۔ جس کا خلاصہ یہ تھا کہ آسائشیں اسٹیٹس اور living standards بہتر کرنے کے لیے ہم آگے بڑھتے جاتے۔۔ بعد میں پتہ چلتا وقت وہی اچھا تھا جو اپنے رشتوں کے ساتھ گزارا ہوتا۔۔
زندگی میں بنیادی ترجیحات کیا ہوتی ہیں وہ سیکھ چکی ہوں۔۔ بروقت فیصلے آپکو گلٹ سے بچا لیتے ہیں۔۔ تکلیف سے بچا لیتے ہیں۔۔
لہذا اب کسی گلٹ کا حصہ نہیں بنوں گی۔۔ یہ تو طے ہے۔۔ دعا کیجیے گا۔۔ میرے بچوں کے سر پر انکے باپ کا سایہ سلامت رہے۔

