Jannat Sa Ehsas
جنت سا احساس
تین سال پہلے کی بات ہے۔۔ ناران سے واپسی ہو رہی تھی۔۔ کوئی پندرہ بیس منٹ کی ڈرائیو کے بعد ناشتے کے لیے ایک خوبصورت سی لوکیشن پر گاڑیاں رکوائی گئیں۔۔ یہاں ایک چھوٹا سا ڈھابہ ٹائپ ریسٹورینٹ بنا ہوا تھا۔
اسکی یونیک بات یہ تھی کہ آدھی عمارت زمین پر تھی اور کھانے والا پورشن ہوا میں۔۔ یعنی ایک کیبن نما کمرہ تھا جو دریا کے اوپر تھا۔۔ دریاے کنہار کے چیختے چنگھاڑتے سیل رواں کے اوپر یہ ننھا سا کیبن خاصہ خوفناک لگ رہا تھا۔۔ میری تو اندر جانے کی ہمت نہ ہوئی۔۔ انتظامیہ نے بتہیرا تسلی دی کہ یہ کیبن بہت مضبوط ہے آپ تسلی سے اندر ناشتہ کریں۔۔ ان کی بات ٹھیک ہوگی لیکن اپنی قسمت پر خصوصی اعتبار نہ تھا۔
میں نے گاڑی سے ایک چادر نکالی اور اس ڈھابے کے دوسری جانب بڑھی۔۔ یہاں بہت سے درخت اور سبزہ تھا۔۔ ایک جگہ رکنا پڑا۔۔ کیونکہ اس سے آگے لکڑی کی ہرڈل لگی تھی یعنی رہائشی علاقہ تھا۔۔ ٹھیک اس ہرڈل کے ساتھ کپڑا بچھا دیا۔ اور جم کر بیٹھ گئے۔۔ ڈھابے والوں کو ناشتے کا آرڈر دے دیا۔۔ میں اٹھ کر ارد گرد جائزہ لینے لگی۔۔
پہاڑی علاقوں میں گھروں کی حدود بندی کرنے کے لیے لگائی گئی لکڑی کی یہ ہرڈلز مجھے بڑی پسند ہیں۔ اس باونڈری کے پار سیدھی زمین کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے اوپر نیچے موجود تھے۔۔ جن میں مختلف سبزیاں اور پھل پھول لگے تھے۔۔ کل ملا کر دیکھنے میں آنکھوں کو بڑے بھلے لگتے۔۔ جہاں ہرڈل ختم ہو رہی تھی۔۔ وہیں پر انکے گھر کا دروازہ تھا۔۔ ایک دو منزلہ بڑی سی عمارت۔۔
اتنے میں ناشتہ آگیا۔۔ ناشتے سے انصاف کرکے فارغ ہوے۔۔ مجھے ہاتھ دھونے تھے۔۔ اذانیں ہو رہی تھیں۔۔ میں اس حسین جگہ پر نماز پڑھنا چاہتی تھی۔۔ یہی سوچتے ہوے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔ امی بھی میرے ساتھ چل پڑیں۔۔ ہم چلتے چلتے اس گھر کے سامنے جا کھڑے ہوے۔۔ یہاں ایک پیاری سی بچی کھیل رہی تھی۔۔ ہمیں دیکھ کر مسکرائی۔۔ میں نے بچی سے کہا کسی بڑی خاتون کو بلاے۔۔ بچی سر ہلا کر اندر بھاگ گئی۔۔ جب واپس آئی اسکے ساتھ ایک ادھیڑ عمر خاتون تھی۔ ہم ماں بیٹی نے بتایا کہ ہمیں نماز پڑھنی ہے۔۔ انہوں نے خوشدلی سے گھر کے اندر آنے کو کہا۔۔ ایک کمرے میں لے گئیں۔۔ ہم نے نماز ادا کی۔۔ نماز کے بعد اس کمرے سے باہر نکلے۔۔
باہر نکلنے پر میں تو دنگ رہ گئی۔۔ اس قدر شاندار آرٹسٹک قسم کے گھر میں نے کم ہی دیکھے۔۔ یہ ایک طویل عمارت تھی جو گولائی میں چاروں جانب پھیلی تھی درمیان میں اسکا صحن تھا۔۔ صحن کیا تھا چھوٹا سا ایک باغ سا تھا۔۔ کئی قسم کے پھلدار درخت بھر پور جوبن پر تھے۔ برآمدے میں لکڑی کی خوبصورت منقش محرابیں۔۔ جن سے روشنی چھن چھن کر اندر کمروں تک آرہی تھیں۔۔ باغ میں داخل ہونے کو سفید ماربل کی سیڑھیاں بنائی گئی تھیں۔۔ ان سیڑھیوں کے ساتھ گملوں میں بڑے ہی دلکش گملے پھولوں سے لدے تھے۔۔
ایک طرف لکڑی کی خوبصورت ڈیزائن کی سیڑھی تھی جو اوپر والی منزل کو جا رہی تھی۔۔ اس سیڑھی کو بھی ہری ہری بیلوں نے جکڑ رکھا تھا۔۔ میں مسحور ہوچکی تھی۔۔ دبی دبی سی ہنسی اور سرگوشیوں کی آوازوں سے چونکی۔۔ مڑ کر دیکھا۔۔ کوئی آٹھ سے دس لڑکیاں تھیں۔۔ جو میری حیرانی پر مسکرا رہی تھیں۔۔ میں بھی مسکرائی۔۔ ان کی طرف بڑھی۔۔ روایتی لباسوں میں موجود یہ پریاں سادگی اور معصومیت کا شاہکار لگ رہی تھیں۔۔
میں نے دل کھول کر اس گھر کی تعریف کی۔۔ انہوں نے شکریہ ادا کیا۔۔ اور مزید گھر دکھانے کو آگے بڑھیں۔۔ مجھے اور کیا چاہیے تھا۔۔ میں نے بھی ان کی تقلید کی۔۔
سیڑھی کی مدد سے دوسری منزل پر پہنچے ایک لمحے تو میری سانس ہی رک گئی۔۔ اس قدر Breath taking منظر تھا کہ بیان سے بھی باہر سمجھیں۔۔ ایک طرف دیوقامت پہاڑ تو دوسری جانب بپھرتا ہوا دریا۔۔ ایسا شاندار ویو تھا کہ بینائی کا حق ادا ہو رہا تھا۔۔ ہزاروں خرچ کرکے یہاں آنے کا سفر اس منظر پر حلال ہوچکا تھا۔۔
کیا آپ لوگ جانتی ہیں آپ ایک ایسی جنت میں رہ رہی ہیں جسے دیکھنے کے لیے ہم کئی گھنٹوں کا سفر کرکے پنجاب سے آتے ہیں۔۔ کتنے خوش قسمت ہیں آپ لوگ۔۔ ایسی جگہ رہنے والوں کو خراج تحسین دینا تو بنتا تھا۔۔ سو میں نے دیا۔۔ جوابا سب کھلکھلا کر ہنس دیں۔۔
ہمیں آپ کے میدانی علاقے بڑے پسند ہیں۔۔ بڑے بڑے شاپنگ مالز۔ بڑی بڑی عمارتیں۔۔ ایک بچی اشتیاق سے بولی۔۔
تو کیا خیال ہے ادلہ بدلہ ہوجاے۔۔ آپ کچھ عرصہ میرا گھر لے لو۔۔ مجھے یہاں رہنے دو؟ میرے شرارتی لہجے پر اس بچی کی مسکراہٹ گہری ہوی۔۔ لیکن ہم نے سنا ہے پنجاب میں گرمی بہت ہوتی ہے۔۔
حق ہا۔۔ ٹھیک سنا تم نے بہن۔۔ گرمی تو جم کر پڑتی ہے۔۔ جیسے آپ کے ہاں برف پڑتی ہے۔۔ اچھا ایسا کرو مجھے کچھ عرصہ ملازمہ رکھ لو۔۔ کھانا بنا دیا کرونگی۔۔ لڑکیوں کا قہقہہ بے ساختہ تھا۔۔ آپ کھانا نہ بھی بنائیں بے شک یہاں رہ لیں۔۔
امی مجھے بلا رہی تھیں۔۔ اس فیری ٹیل سے باہر جانے کو دل قطعا نہ مان رہا تھا۔۔ لیکن جانا تو تھا۔۔ سو ایک مرتبہ پھر بھرپور سی نظر اس منظر پر ڈالی۔۔ اور نیچے اتر آے۔۔ چاے تیار تھی۔۔ زبردست سی چاے پلائی گئی۔ اور اسکے بعد ہم نے اجازت چاہی۔۔
واقعہ تو ماضی کی صندوق میں بند ہوگیا لیکن وہ گھر پوری آب و تاب کے ساتھ میری یادداشتوں میں دمکتا ہے۔۔ اگلی گرمیوں میں دوبارہ اس گھر ضرور جانا چاہونگی۔۔ ایسی چھوٹی سی جنت کو قریب سے دیکھنے کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔۔