Humdard Fitrat Aur Social Work
ہمدرد فطرت اورسوشل ورک
ان دنوں کی بات ہے جب میری عمر کوئی سات، آٹھ سال کے قریب ہوگی۔ ہمارے گھر سے کچھ فاصلے پر ماسی فیضاں کا گھر تھا۔ ہم بہنیں ان کے گھر قرآن پاک پڑھنے جاتی تھیں۔ کچھ دیر پڑھتے پھر ان کے پوتے پوتیوں سے کھیل کود کرکے واپس آجاتے۔ اس دن بہت سردی تھی۔ صبح امی نے مجھے پیسے دیے کہ ماسی فیضاں کی بہو سے دیسی انڈے لے آو۔
میں نے ان کے گھر جا کر بہو کا پوچھا۔ انہوں نے بتایا وہ کچن میں ناشتہ بنا رہی ہیں۔ کچن نما چھوٹے سے کمرے میں جب داخل ہوئی یوں لگا کہ بھوت بنگلے میں آگئی ہوں۔ اندھیرا اور دھواں۔ اس چھوٹے سے کمرے میں کئی لوگ بھی بیٹھے تھے لیکن مجھے کوئی نظر ہی نہ آرہا تھا۔ میں نے بمشکل چیخ کر ان کو پکارا اور انڈے مانگے۔ انہوں نے فورا اس کال کوٹھری سے باہر نکالا کہ دھویں سے بچی کی حالت خراب ہو جاے گی۔
باہر نکل کر کافی دیر بعد میری آنکھیں دیکھنے کے قابل ہوئیں تو ماسی فیضاں کی بہو سے پوچھا۔
آپ کے اس کچن میں بلب کیوں نہیں ہے؟
وہ پھیکی سی ہنسی ہنس دیں"۔ ہاں بیٹا۔ لگوائیں گے، ابھی حالات نہیں"۔
اتنی سی عمر میں بھی مجھے ان کے اس جملے" ابھی حالات نہیں " نے بہت تکلیف دی۔
واپس آکر میں نے ابو کا سر کھانا شروع کردیا کہ مجھے ایک بلب لا دیں۔ سٹور سے ہولڈر اور تار ڈھونڈ کر نکال لائی۔ وقفے وقفے سے اس کال کوٹھڑی کا نقشہ کھینچ کر جتاتی رہی تاکہ ابو کو اندازہ ہو یہ بلب ان کے لیے ناگزیر ہے۔ آخر کار شام تک ابو نے مجھے ہولڈر میں تار جوڑ کر بلب لگا ہی دیا اور میں خوشی خوشی وہ بلب لے کر ان آنٹی کو دے آئی۔ آنٹی پہلے تو حیران ہوئیں پھر شکریہ کے ساتھ بلب اپنے کچن میں لگوایا۔ جب یہ کمرہ روشن ہوا میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔
یہ تھا میری زندگی کا پہلا سوشل ورک، جو میری یادداشتوں میں محفوظ ہے۔ یہاں سے شروعات ہوئی۔ ضرورت مند کی مدد کا یہ پہلا واقعہ تھا لیکن آخری نہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ میری ہمدرد فطرت ایسے لوگوں کی طرف مجھے کھینچ کر لے ہی جاتی تھی۔ یہ اللہ تعالی کا مجھ پر کرم تھا کہ مجھے وہ درد دکھائی دیتا تھا جس سے کافی لوگ لاعلم ہوتے یا پروا نہیں کرتے۔ اپنی پاکٹ منی کئی بار ایسی چھوٹی موٹی ہیلپس میں لگا دیتی تھی۔
ایک مرتبہ ایک رشتے دار خاتون کے حالات کا پتہ چلا کہ ان کے گھریلو حالات بہت مخدوش ہیں۔ ان کا ایک چھوٹا سا بچہ بھی تھا۔ گھر کے بڑے آپس میں بات کر رہے تھے کہ شوہر ان خاتون کا نشئی ہے۔ اس کے پاس بچے کو کھلانے کے لیے بھی کچھ نہیں ہوتا۔ یہاں میرے دل کو دھکا لگا۔ میرا کھیل سے دل اچاٹ ہوگیا۔ اس دن سوچنا شروع کردیا کہ کیسے ان کے بچے کی ضروریات پوری کی جائیں؟
یہ خالی میری پاکٹ منی کے بس کی بات نہ تھی۔ کریانے والے انکل سے جا کر بسکٹس کا ایک بڑا ڈبہ، خشک دودھ کے ساشے والا ڈبہ اور سلانٹی کا ایک بڑا پیک، اس نے جو قیمت بتائی میری کافی دن کی پاکٹ منی جمع کرکے بھی یہ سامان نہیں آنا تھا۔ اس دن خیال آیا دوستو اور بہنوں سے مدد لینے کا۔ میں نے ان سے بات کی اور اس بات پر قائل کیا کہ ایک ہفتے کی پاکٹ منی ملائیں گے اور یہ سامان خرید لیں گے۔
ایک ہفتے بعد میں یہ سارا سامان خرید چکی تھی بلکہ پچاس روپے بھی بچ گئے تھے۔ یہ سامان اور پیسے امی کو دیے کہ انہیں دے آئیں۔ امی ابو میرے اس جذبے پر بہت خوش ہوئے اور ایپری شئیٹ بھی کیا۔ وقت گزرتا گیا میں اپنی ہمدرد فطرت کی وجہ سے پوری فیملی میں مشہور ہوچکی تھی۔ ایسی بزرگ خواتین جن کا کوئی پرسان حال نہ ہوتا، ان کی مدد میں پیش پیش رہتی تھی۔
مجھے یہ اندازہ بہت جلد ہوگیا کہ میرے ارد گرد غربت اور کسمپرسی سوچ سے بڑھ کر ہے۔ یہ طے کرلیا کہ جتنا مجھ سے ممکن ہوگا ایسے لوگوں کی مدد کیا کروں گی۔ ٹھیک ہے، جہاں اتنے لوگ مدد کے مستحق ہیں وہاں کسی ایک آدھ کی معمولی سی مدد کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا لیکن ان سے پوچھیں، جن کے لیے ایسی مدد بہت بڑا ریلیف ثابت ہوتی تھی۔
کسی بھوکے کو کھانا کھلا دیا، پیاسے کو شربت پلا دیا، سردی میں جرسی دلا دی، کسی کے بچوں کو کپڑے دلا دیے، کسی کو جوتی۔ یہ مدد ہمارے لیے بھلے معمولی ہوتی لیکن ان کے لیے نہیں۔ مجھے یاد ہے چند سال پہلے ایک بزرگ خاتون تپتی دوپہر میں گھر کے سامنے موجود کھیت میں گندم کے سٹے جمع کر رہی تھیں۔ مجھ سے رہا نہ گیا۔ ان کے پاس شربت بنا کر پہنچ گئی اور انہیں کہا مجھ سے گندم لے لیں لیکن یہ سٹے مت چنیں۔
بزرگ خاتون بے بسی سے مسکرائیں۔ مجھے گندم کی نہیں، پیسوں کی ضرورت ہے۔ میں اس کو بیچ کر پیسے جوڑوں گی پھر اپنی بیٹی سے ملنے لودھراں جاوں گی۔ ابھی صرف دو سو ہوا ہے یہ تو آنے جانے کا کرایہ ہوجانا، بیٹی کے لیے بھی تو کچھ لینا ہے۔ اس بے بسی پر میرا دل کٹ گیا۔ میں نے اسی وقت ان کو اتنی رقم فراہم کی جس سے وہ بیٹی سے ملاقات کر آئیں۔
میرے لیے یہ رقم زیادہ نہ تھی لیکن ان خاتون کے لیے یہ بہت بڑی رقم تھی۔ ان کی آنکھوں میں خوشگوار چمک تھی، بیٹی کے پاس جانے کی چمک۔ کیا اس وقت ان پیسوں سے قیمتی کچھ ہوسکتا تھا؟ یہ تو چند مثالیں ہیں، ایسی کئی مثالوں سے اللہ پاک نے میری زندگی کو بھر دیا ہے اور اس پاک ذات کا بے بہا کرم ہی ہے کہ وہ چندلوگوں کی مدد کا وسیلہ مجھے بناتا ہے۔
پہلے بہن بھائیوں کی مدد حاصل ہوتی تھی۔ اب فیس بک پر ایسے کئی احباب ہیں۔ میری ایک آواز پر مدد کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ میں آج آپ تمام احباب کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں جنہوں نے ضرورت مندوں کی مدد کرانے میں میرا ساتھ دیا۔ میں بے حد مشکور ہوں اور خوش بھی۔ میری دعا ہے روز آخرت اللہ آپ تمام احباب کو وہ اجر عظیم دے جس کا اس نے وعدہ کیا ہے۔
آخر میں ایک بات کرنا چاہوں گی۔ کبھی بھی یہ نہ سوچیں کہ میری معمولی سی مدد سے کیا ہوجاے گا؟ غریب کی غربت پر کونسا فرق پڑ جانا بھلا؟ وہ تو غریب ہی رہے گا۔ تو آپ کی سو روپے کی مدد بھی ان کے لیے گراں قدر سرمایہ ثابت ہوتی ہے۔ ایک بہت بڑا ریلیف۔
یاد رکھیں۔ کسی چیز کی قیمت کا تعین زیادہ یا کم پیسہ نہیں۔ اس کی ضرورت کرتی ہے کہ یہ چیز اگلے کے لیے کتنی ناگزیر ہے؟