Gale Ka Operation
گلے کاآپریشن
نئی زندگی کی نئی شروعات، میرے لیے تو مبارک ہے ہی، آپ سب کو بھی مبارک ہو۔ مزید کتابیں پڑھ لیں گے، مسکرا لیں گے۔ آپ تمام دوستوں کی پر خلوص دعاؤں کے لیے تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔
اللہ جی سے مذاکرات کامیاب ہوے۔ اس پاک ذات کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے۔ انسان جب بھی موت کے منہ سے نکلتا ہے ایک بات پر ایمان کی حد تک یقین بڑھتا ہے۔ جب تک آپ کا مقررہ وقت نہیں آ جاتا، خود موت آپ کی زندگی کی حفاظت کرتی ہے۔ اس سرجری کا برڈن کچھ زیادہ تھا کیونکہ ڈیڑھ سال پہلے سیم اسی سرجری سے والدہ گزری تھیں۔ امی جانبر نہ ہو سکی تھیں۔
یہ گلے کا ایک پیچیدہ سا آپریشن تھا۔ تھائی رائڈ گلینڈز گلے کے دونوں جانب بڑھ کر ٹیومر کی شکل اختیار کر رہے تھے۔ چھوٹے بڑے کئی مسائل تھے جو اس بیماری کی وجہ سے فیس کرنے پڑ رہے تھے۔ ان کو ریموو کرانا ناگزیر تھا۔ یہ وہ حقیقت تھی جس نے مجھے فیصلہ لینے پر مجبور کیا۔ اب سائیڈ ایفیکٹس تھوڑا ڈرا رہے تھے۔ کیونکہ گردن میں اتنی وینز ہوتی ہیں کہ معمولی سی بھی کوئی متاثر ہو جاے تو کچھ کا کچھ ہو جاتا ہے۔
یوں سمجھیں ساری باڈی کی وائرنگ یہی سے گزر رہی ہوتی ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ آواز ڈیمیج ہو سکتی ہے۔ مستقل ختم بھی ہو سکتی ہے۔ جب سر جاوید اقبال صاحب سے پوچھا تو انہوں نے تسلی دی کہ پوری کوشش کریں گے آواز خراب نہ ہو اور بے شک انہوں نے وعدہ پورا کیا۔ مجھ سے زیادہ میری فیملی پریشان تھی اور پریشر تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا جا رہا تھا۔
لاکھ کوشش کی ادھر ادھر دماغ لگاؤں، کیونکہ جب زندگی موت کی کشمکش میں ہوں اور آپ شیور نہ ہوں تو تھوڑی بہت ٹینشن تو بنتی ہے۔ اوپر سے کافی رشتے دار جمع تھے اور سب کے سب کالے نیلے پڑ رہے تھے۔ نرس آپریشن سے پہلے ایک انجکشن لگانے آئی۔ کمرے میں موجود آٹھ دس خواتین کو دیکھ کر تھوڑی کنفیوز ہوی۔
مریض کون ہے؟
میں نے مسکرا کر ہاتھ کھڑا کیا اور بولی۔ گو کہ یہ سب لگ رہی ہیں لیکن اوریجنل مریض میں ہی ہوں۔
آپریشن تھیٹر کا دروازہ کھلتا ہے۔ تھوڑا سا کھڑکا ہوتا ہے، سب فق چہرے سے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ سسرال اور میکے کے علاوہ ننھیال، ددھیال بھی جمع تھے۔ مجھے ان کی حالت پر ترس آ رہا تھا۔ میری محبت میں بے چین یہ لوگ بہت اذیت میں تھے۔ خدا خدا کر کے میرا نمبر آ گیا۔ بہت پیاری شخصیت جناب ڈاکٹر Javed Iqbal صاحب کی طرف سے مجھے کاشن مل گیا کہ اگلے پانچ مںٹ میں میرا آپریشن شروع ہو گا۔
میں اٹھ کر تیزی سے باہر جانے کو بڑھی۔ خالہ نے اضطراب سے میرا ہاتھ پکڑا اور پیار سے میرا ماتھا چوما۔ ان کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز تھیں۔ میں نے سوچا اب مجھے مزید کسی سے نہیں ملنا۔ مجھ سے ان کی تکلیف نہیں دیکھی جا رہی تھی۔ تیزی سے نکل گئی۔ بہن نشا میرے پیچھے آئی اور زبردستی میرے گلے لگ گئی۔ اس کا رونا دیکھ کر میرا دل بھر آیا۔ نئے دوستو کو حیرت ہو گی کہ سارے اتنے زیادہ پریشان کیوں تھے؟
جبکہ پرانے دوستو کو پتہ ہو گا کہ امی کی ناگہانی موت نے ہمیں اس سرجری سے خوفزدہ کر دیا تھا۔ مجھے ڈیڑھ سال سے اس سرجری سے روکا جا رہا تھا لیکن اس کے علاوہ حل کوئی نہ تھا اور میں نے خود یہ ڈسئین لیا کہ بس کرانی ہے تو کرانی ہے۔ اس فیصلے کی وجہ ڈاکٹر صاحب کی ذات پر بے پناہ اعتماد تھا۔ خیر آپریشن تھیٹر چلی گئی۔ اگلے پانچ دس منٹ میں میری ہارٹ بیٹ کو نارمل کرنے والی دوائیں دینے کے بعد اینیستھزیا دیا گیا۔ اس کے بعد میں نے تو کلمہ پڑھ لیا کہ پتہ نہیں اٹھنا ہے کہ نہیں؟ بندوبست کر کے سوتے ہیں۔
لیکن کافی دیر بعد چہرہ تھپتھپایا جا رہا تھا۔
کرن خان بیٹا آنکھیں کھولیں۔
بس جی آنکھیں پھر سے کھل گئیں اور ایک ہی لفظ پکارا۔
امی!
ڈاکٹر صاحب کا بے حد شکریہ۔ میرے خاندان کو اس خوف سے نکالا۔ ان کا اعتماد بحال کیا اور ہاں ڈانٹا بھی کہ یہ اتنی بارات کرن خان کے ساتھ آئی ہے؟ وہ نہیں جانتے تھے یہ سب لوگ بہت ڈرے ہوے ہیں۔ یہ کرن کے فیصلے کی وجہ سے مجبوراََ چپ ہیں۔ اکیلا نہیں چھوڑ پا رہے تھے۔ کسی ناگہانی کے خوف نے انہیں ہسپتال آنے پر مجبور کر دیا تھا۔ بیٹی کی سرجری کسی صورت نہ چاہتے تھے۔
طبیعت کافی بہتر ہے۔ باقی کٹ کر سیا ہوا گلا کچھ دن تو تکلیف دے گا۔
آخر میں ایک بار پھر بے حد شکریہ۔