Chota Business Bari Kamyabi
چھوٹا بزنس بڑی کامیابی
اسلامک پوائنٹ آف ویو سے کسی بھی کاروبار کے ساتھ جب تک محنت کی شمولیت نا ہو وہ کام منافع بخش نہیں ہوپاتا۔ اسلام کاروبار کے ساتھ ساتھ اعلیٰ اخلاق و اقدار کی اہمیت پر بھی زور دیتا ہے۔ جدید بزنس کی اصطلاح میں تو جو کام سو بزنس مین بیک وقت کریں ان کے لیے یہ rule بن جاتا ہے اور لیگل کہلایا جاتا ہے۔ جبکہ اسلام نے موٹی ویشن کے ساتھ ساتھ کچھ حدود واضح کردیں۔
چند موٹے موٹے اصول بیان کر دیے گئے۔ جو کہ مندرجہ زیل ہیں۔
1۔ فرمانِ نبویؐ ہے کہ تجارت میں چند چیزوں سے بچنا چاہیۓ۔ ان میں سود کا کاروبار، دھوکہ دہی، بد دیانتی، جھوٹی قسمیں کھا کر اپنی پروڈکٹ سیل کرنا، مال کے عیب چھپانا، ملاوٹ اور زخیرہ اندوزی سے منع کیا گیا۔
2۔ آج کل کے تشہیری وسائل اور اشتہارات کے زریعے مصنوعی طور پر چیزوں کی طلب بڑھائی جاتی ہے۔ یہ اسلام کی نظر میں پسندیدہ عمل نہیں۔ چناچہ رسول پاکؐ نے اس کام سے منع فرمایا ہے۔ حرام اشیاء کا کاروبار سخت نا پسندیدہ قرار دیا گیا۔
اب میں نے اس ٹاپک پر ابو سے ڈسکشن کرنی تھی۔ لہٰذا شام کی چاۓ پر پہلے سوال سے آغاذ کیا " ابو جی دو بندوں نے تجارت میں ایک جیسی محنت کی ایک کامیاب ہوگیا، دوسرا ناکام تو کیا وجہ؟ بہت سارا پیسہ اور محنت لگا کر بھی ناکام ہوجاتے۔
"ابو نے چاۓ کی چسکی لی، کپ رکھا اور گویا ہوۓ " کیونکہ میں سمجھتا ہوں بزنس کامیاب ہونے میں تقریباً قسمت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ اگر کامیابی ملنی ہے تو عام سے کام میں بھی مل جاتی، نہیں ملنی تو لاکھوں خرچ کرکے بھی نہیں ملنی"۔
میرا اگلا سوال " تو ہمیں کیسے پتہ چل سکتا ہے کہ کاروبار ہماری قسمت میں نہیں؟ اور کیوں نہیں؟
ابو نے گلا کھنکھارا " دیکھو بیٹا ایک چیز تو طے ہے کہ ہمارے نصیب میں جتنا رزق لکھ دیا گیا ہے وہ ہمیں ہر صورت ملنا ہے۔ ہمیں اپنی حدود و قیود میں رہ کر کوشش کرنی چاہیے بس۔ باقی سب اللہ کی ذات کے ہاتھ میں ہے۔ وہی سارا سیٹ اپ چلا رہا ہے اور اسی کو پتہ ہے کس کو کیسے ٹریٹ کرنا ہے"۔
بات خدا اور قسمت کے کورٹ میں آگئی تھی اور خدا کی پالیسیاں ہمیں آسانی سے سمجھ کہاں آتی ہیں؟ لہٰذا میں نے اگلا سوال ایک چھوٹے سے اعتراض کے ساتھ کیا" لیکن ابو جی اللہ کیوں چاہتا ہے کہ کچھ لوگ کامیاب ہوں اور کچھ نا ہوں؟ ایک بندہ جب محنت کر رہا ہے تو اس کو کامیابی کیوں نہیں مل رہی؟
ابو کی مسکراہٹ گہری ہوگئی " کیونکہ جو چیز وہ جانتا ہے ہم نہیں جانتے اس لیے اعتراض کر بیٹھتے ہیں۔ دراصل انسان جلد باز واقعہ ہوا ہے کچھ راتوں رات ترقی کرنا چاہتے، لہٰذا دیر برداشت نہیں کرتے۔ کچھ کاروبار شروع کرتے ہیں تو اپنے آپ کو عقل کل سمجھ کر الٹے سیدھے فیصلے کرنے لگ جاتےہیں تب بھی نقصان اٹھاتے، اور کچھ حلال و حرام کی پروا بھول جاتے۔
جھوٹ، دھوکہ، بد دیانتی جب کاروبار میں شامل ہوجاۓ تو پھر وقتی کامیابی تو آجاتی لیکن انجام ناکام ہی ہونا۔ انسان کو خدا پر توکل ہونا چاہیۓ۔ دستیاب وسائل سے جتنا ہوسکتا ہے کوشش کرے۔ نتیجہ اللہ پر چھوڑ دے"۔
میں آسانی سے مطمئن ہونے والوں میں سے نہیں تھی لہٰذا ایک اور آبجیکشن کی"۔ تو ابو جی کیا مسلمانوں کے بارے میں درست کہا جاتا ہے؟ کہ یہ محنت نہیں کرتے زیادہ اور ہر معاملے میں خدا پر چھوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں؟ اور وہ لوگ ہمت نہیں ہارتے اور کامیابی پا کر ہی رہتے ہیں"۔
ابو کھل کر مسکراۓ " اچھا واہ۔ کونسی شدید محنت کی انہوں نے؟ جو دنیا کے کامیاب، مشہور یا دولت مند لوگ رہے ہیں، ان کی ہسٹری تمہیں معلوم نہیں ہے کیا؟ بل گیٹس ہو ایپل کا بانی، انڈین بزنس ٹائیکون ہوں یا مارک زگر برگ ہو۔ کیا یہ ایوریج بلکہ ناکام سٹوڈنٹس نہیں تھے؟ ان کے ٹیچرز ان سے مایوس رہتے تھے، نا ہی انہوں نے دن رات محنت کی۔
لیکن کیونکہ ان کے نصیب میں دولت تھی اس لیے جو بھی کام کرتے اتنی دولت ان کو ہر صورت ملنی تھی۔ رہی بات محنت کی تو محنت سے کس نے روکا ہے؟ بے شک محنت اور کوشش کریں لیکن دولت کو غلط طریقوں سے حاصل کرنے کی کوشش نا کریں۔
ساتھ ہی ابو نے حضرت علیؓ کا واقعہ بھی سنا دیا۔
ایک بار حضرت علیؓ نماز کے لیے جاتے ہیں تو اپنا گھوڑا ایک بندے کے حوالے کرکے جاتے ہیں کہ اس کا خیال رکھنا۔ بندہ ہامی بھر لیتا ہے۔ حضرت علیؓ جب نماز سے فارغ ہوکے آتے ہیں تو گھوڑا موجود ہوتا ہے لیکن گھوڑے پر زین نہیں ہوتی۔ بندہ زین چوری کرکے جا چکا ہوتا ہے۔ حضرت گھوڑے کی لگام تھام کر چل پڑتے ہیں۔ بازار سے گزرتے ہیں تو ایک جگہ ان کو اپنے گھوڑے کی زین نظر آتی ہے۔
جا کر تاجر سے اس کے متعلق پوچھتے ہیں تو وہ بتاتا ہے کہ ابھی ایک بندہ چند دینار میں مجھے فروخت کرکے گیا ہے۔ حضرت علیؓ جیب سے اتنے ہی دینار نکال کر تاجر کو دیتے ہیں اور زین لے کر واپس گھوڑے پر رکھتے ہیں اور فرماتے ہیں۔ " اس چور کے نصیب میں اتنے دینار آج لکھے تھے اس کو ہر صورت ملنے تو تھے۔ کیونکہ میں نماز کے دوران سوچ رہا تھا کہ نماز کے بعد گھوڑے کی حفاظت کے بدلے یہی دینار اسے دیتا جن سے اب میں نے زین خریدی ہے۔ بے صبری اور لالچ کی وجہ سے اس کو دینار مل تو گئے لیکن اس نے اپنے لیے حرام کر کے لیے"۔
اور اسی واقعے کے ساتھ ابو کا نکتہ نظر میرے ذہن میں کافی واضح ہو چکا تھا۔ ابو کی اس بات کے ساتھ ہماری ڈسکشن ختم ہوئی کہ خوشی اور راحت کا تعلق کسی بزنس یا دولت سے نہیں۔ انسان جتنا زیادہ دولت مند ہوتا ہے ضروری نہیں کہ اتنا خوش بھی ہو۔ خوشی انسانوں میں ہے، رشتوں میں ہے، دولت میں نہیں۔
" ایک بزنس مین ڈپریشن اورفرسٹریشن کو کم کرنے کے لیے ساحل سمندر پر جاتا ہے تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک مچھیرا کپڑا بچھاے آرام سے سو رہا ہے۔ وہ اس کے قریب جا کر مچھیرے کو مخاطب کرتا ہے
" لگتا ہے آج تمہارا دن اچھا نہیں گزرا۔ تم نے ایک بھی مچھلی نہیں پکڑی۔ تمہیں زیادہ محنت کرنی چاہیے"۔
مچھیرے نے آنکھوں پر رکھا بازو ہٹایا اور بزنس مین کو سوالیہ انداز سے دیکھا۔
" اچھا! تو زیادہ محنت سے کیا ہوگا؟"
بزنس مین نے سمجھایا۔
" زیادہ محنت کروگے تو اچھا جال لوگے اور زیادہ مچھلیاں پکڑوگے"۔
مچھیرا اس کو بے تاثر نظروں سے دیکھنے لگا اور بولا۔
" اچھا تو پھر کیا ہوگا"؟
بزنس مین جھنجھلایا۔
" زیادہ مچھلیاں پکڑوگے تو پیسے زیادہ آئیں گے پھر تم اپنی بوٹ لے لینا اور دور دور سے بھی مچھلیاں جمع کرنا"۔
مچھیرا ہنوز بے نیازی سے اس کو دیکھتا رہا۔
"پھر؟ اس سے کیا ہوگا؟"
بزنس مین اس کے رویے سے زچ آچکا تھا لہٰذا اب جارحانہ انداز میں بولا۔
" کیا تم کو عقل نہیں ہے؟ اس کے بعد ظاہر ہے تم امیر ہوجاؤگے تمہارے انڈر لوگ کام کریں گے۔ دولت جمع ہو جاۓ گی تو مزدور تمہارا کام کریں گے اور تم سکون سے اسی طرح کے کسی ساحل پر آرام کرنا"۔
مچھیرا طنزیہ انداز میں مسکرایا " تو تمہارے خیال میں اب میں کیا کر رہا ہوں؟"