Naam e Hussain Bartar o Baala Hai Aaj Bhi
نامِ حسین برتر و بالا ہے آج بھی
پرچم اسلام پھر اونچا جہاں میں کردیا
حق کی جدوجہد میں سبط نبی نے سر دیا
اے حسین ابن علی چشم و چراغ مصطفی
رنگ تیرے خون نے تاریخ حق میں بھر دیا
محرم کا چاند نظر آتے ہی امت مسلمہ پر غم و اندوہ کے بادل چھا جاتے ہیں۔ شادی بیاہ کے ہنگامے ماند پڑ جاتے ہیں۔ ماحول کی افسردگی گواہی دیتی ہے کہ یہ قوم بہت بڑے صدمے سے دو چار ہوئی ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ ایک داستان الم ایسی ہے کہ جو تاریخ کے صفحات میں آج بھی اسی طرح روشن اور تابندہ ہے جس طرح آج سے چودہ سو سال پہلے تھی۔ انقلابات روزگار کی ہزاروں گردشیں اس داستان کو نہ مٹا سکیں اور نہ رہتی دنیا تک مٹا سکیں گی۔ اس داستان عظیم کو لکھنے والی شخصیت نے اسے اپنے خون جگر سے لکھا اور دشت کرب و بلا کے دمکتے ذروں نے اسے اپنے سینوں میں محفوظ کرلیا۔
فاطمہؓ کے لخت جگر نے اپنے نانا حضرت محمد ﷺ کے مقدس دین کے احیاء کے لیے جو بے نظیر معیار قائم کیا تاریخ عالم کے صفحات اسکی مثال پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ جادہ حق و صداقت کے راہی نے کمال صبرو استقامت سے ان آزمائشوں کو طے کیا جو اللہ رب العزت نے اپنے ابدی پیغام قرآن میں متعین کیں۔ امام عالی مقام کا فرمان ہے "اے لوگو! نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہےکہ جو کوئی ایسے حاکم کو دیکھے جو ظلم کرتاہے۔ اللہ کی قائم کی ہوئی حدیں توڑتا ہے اور دیکھنے والا دیکھنے پر بھی نہ تو اپنے فعل سے اس کی مخالفت کرتا ہے نہ اپنے قول سے، تو ایسے لوگوں کو خدا اچھا ٹھکانہ نہیں بخشے گا"۔
"افسوس تم دیکھتے نہیں کہ حق پس پشت ڈال دیا گیا ہے اور باطل پر اعلانیہ عمل کیا جارہا ہے، کوئی نہیں جو اس کا ہاتھ پکڑے، وقت آ گیا ہے کہ مومن راہ حق میں رضائے الٰہی کی خواہش کرے۔ میں شہادت ہی کی موت چاہتا ہوں۔ ظالموں کے ساتھ زندہ رہنا بجائے خود ظلم ہے"۔
61 ہجری میں یزید کی تخت نشینی کے ساتھ ہی خلافت اسلامیہ ملوکیت میں بدل گی۔ آزادی و حریت کی جگہ شخصیت پرستی نے اور نظام شوری کی جگہ ڈکٹیٹر شپ نے لے لی۔ اسلام کے نورانی چہرے پر نفس پرستی اور خود غرضی کے جالے تن گئے۔
حضرت امام حسینؓ سے یزید کی بیعت کا مطالبہ کیا گیا تو آپ نے صاف صاف انکار کردیا۔ ان کی غیرت و حمیت اپنے نانا جان کے عطاء کردہ نظام زندگی سے انحراف کیسے کرسکتی تھی، آپ انصاف و سچائی کا بول بالا کرنے اور جمہوریت و آزادی رائے کا پرچم لہرانے کے لئے خاندان سمیت میدان جہاد میں کود پڑے۔ یزید اور اس کے حواری چاہتے تھے کہ اسلام کا شورائی نظام امام حسین کے نام پر اسلام سے خارج ہوجائے۔ انہوں نے حکومت و دولت کا لالچ دیا، جان و مال کا خوف دلایا۔ اگر آپ چاہتے تو یزید کی اطاعت کا اعلان کرکے ہر مصیبت سے نجات پالیتے۔ لیکن آپ راہ حق پر ڈٹے رہے۔
مدینہ شریف سے کوفہ کی جانب روانگی سے قبل امام عالی مقام نے اپنے سفر کا مقصد یوں بیان فرمایا "مدینہ سے میرا نکلنا نہ خود پسندی اور تفریح کی غرض سے ہےاور نہ فساد و ظلم و ستم میرا مقصد ہے۔ میں تو صرف اس لیے نکلا ہوں کہ اپنے نانا کی امت کی اصلاح کروں۔ میں چاہتا ہوں کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو انجام دوں اور یوں اپنے نانا اور اپنے والد گرامی کی سیرت کی پیروی کروں۔ اب اگر کوئی میری دعوت کو حق سمجھ کر قبول کر لے تواس نے اللہ کا راستہ اختیار کیا اور اگر میری دعوت کو مسترد کردے تو میں صبر کروں گا، یہاں تک کہ اللہ میرے اور ان افراد کے درمیان فیصلہ کردےاور اللہ ہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ (بحوالہ: حسین ابن علی مدینہ تا کربلا) مسلم تو مسلم غیر مسلم بھی امام عالی مقام کے اس دلیرانہ فیصلے پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہیں۔
نامور مصنف تھامسں کار لائل اپنی مشہور کتاب Heroes and hero worship میں لکھتا ہے "میدان کربلا کے المیہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ حضرت امام حسین اور آپ کے ساتھیوں کو خداوند تعالٰی پر یقین کامل تھا۔ آپؓ نے اپنے عمل سے ثابت کردکھایا کہ حق اور باطل کی کشمکش میں تعداد کی برتری کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ قلیل تعداد میں ہوتے ہوئے بھی حسینؓ کی فتح نے مجھے بے حد متاثر کیا ہے۔ جب دنیا میں غضب بڑھ جائے تب خدا کا قانون قربانی کا طلب گار ہوتا ہےاور اس کے بعد سارے راستے کھل جاتے ہیں۔ بہادرانہ کارنامے ایک ملت یا ملک تک محدود نہیں رہتے بلکہ انسانی برادری کی میراث ہوتے ہیں اور دلیری کا جو سبق ہمیں کربلا سے ملتا ہے کسی اور تاریخ سے نہیں ملتا"۔
حضرت امام حسینؓ نے قیامت تک آنے والی امت مسلمہ کے لیے یہ نمونہ پیش کیا کہ اگر حکومت مسلمانوں کے ہاتھ میں ہو اور وہ غلط راہ پر جا رہی ہو تو اس کے خلاف جدوجہد درست ہے۔ غم حسین منانے والوں کو انکی اس لازوال قربانی کا اصل مقصد ضرور پیش نظر رکھنا چاہیے۔
کٹ کے چڑھ جائے سر ترا نیزے کی نوک پر
لیکن یزیدیوں کی اطاعت نہ کر قبول
آج ضرورت اس امر کی ہے ہم امام علی مقام کے اوصاف کو اجاگر کریں اور انکی سیرت پر عمل کرتے ہوئے وطن عزیز پاکستان میں نظام اسلام کے نفاذ کی کوشش کریں۔ جو نیک لوگ اس مقصد کے حصول کے لئے کوشاں ہیں انکا بھر پور ساتھ دیں اور سب مل کر اپنے لیے ایسی صالح قیادت منتخب کریں جو اسوہ حسینی کو ہمیشہ زندہ رکھے۔ حسینؓ ہمارے دل کے اندر بھی ہونے چاہئیں اور ہمارے کردار میں بھی انکی جھلک نظر آنا چاہیے۔
اے علمبردار حق، اے پیکر صبرو رضا
جان تو نے دے کے پیغام رضا گھر گھر دیا
بھیجتی ہے لعنتیں دنیا یزید و شمر پر
اور تو نے راستی کا نام روشن کر دیا