Muslim Khatoon Ka Mansab Aur Zimma Dariyan
مسلم خاتون کا منصب اور ذمہ داریاں
اک زندہ حقیقت ہے مرے سینے میں مستور
کیا سمجھے گا وہ جس کی رگوں میں ہے لہو سرد
نے پردہ نہ تعلیم نئی ہو کے پرانی
نسوانیتِ زن کا نگہبان ہے فقط مرد
زندگی کی بقا اور ترقی میں مرد کا جتنا حصہ ہے، اتنا ہی حصہ عورت کا بھی ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تعمیرِ معاشرہ میں عورت کی ذمہ داریاں بنیادی اہمیت کی حامل ہیں۔ خالقِ فطرت نے عورت کا جو دائرہ کار متعین کیا ہے اور جو فرائض اُس پر عائد کئے ہیں، ان پر غور کیا جائے تو انکی حکمت اور مصلحت سمجھ میں آجاتی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اپنے گھروں میں وقار کے ساتھ جمی رہو اور پرانی جاہلیت کے انداز اختیار کرکے خود کو دکھاتی نہ پھرو۔ نماز ادا کرتی رہو اور زکوٰۃ دیتی رہو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت اختیار کرو۔ اللہ تو بس یہی چاہتا ہے اے اہل بیت، کہ تم سے گندگی اور ناپاکی دور کردے اور تمھیں خوب پاکیزہ کر دے"۔ (سورة الاحزاب)
گویا پہلا طے شدہ اصول یہ ہے کہ عورت کا دائرہ کار اس کا گھر ہے۔ اسی میں اس کا وقار اور اُس کی عزت و بزرگی ہے۔ اسکا زیب و زینت کے ساتھ گھر سے نکلنا جدت نہیں بلکہ پرانی جاہلیت کا انداز ہے۔ دوسری ذمہ داری یہ عائد کی کہ گھر کے اندر رہ کر نماز قائم کرے، زکوۃ ادا کرے اور الله و رسول کی اطاعت کرتی رہے۔ اس سے مقصود یہ بیان فرمایا کہ اللہ تعالٰی تم سے گندگی و ناپاکی دور کردے اور تمھیں پاکیزہ بنادے یعنی سیرت و کردار کی بہترین خوبیاں تم میں پیدا کر دے۔ گویا کہ ایک مسلم خاتون کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنی نیک سیرت سے گھر میں اسلامی ماحول تشکیل دے تا کہ بچے ایک صالح ماحول میں پرورش پا کر خدا پرست انسان بن کر اُٹھیں۔
اگر عورت گھر کو صالح بنیاد فراہم کردے تو سارا معاشرہ اصلاح پذیر ہو سکتا ہے۔ تیسری اہم بات آیتِ مذکورہ میں یہ ہے کہ عورت کی عفت و عصمت کو محفوظ رکھنے اور اس کو دنیاوی آلائشوں سے محفوظ رکھنے کے لئے اُسے گھر کی چار دیواری کا تحفظ دینا ضروری ہے۔ صرف اسلام عورت کو یہ تحفظ فراہم کرتا ہے اور اسے بیرون خانہ سرگرمیوں سے بری قرار دیتا ہے تا کہ وہ اپنے فرائض بآسانی انجام دے سکے جن پر معاشرے کی تعمیر ہوتی ہے۔ اسی طرح اسلام مرد کو عورت پر قوام بنا کر معاشی تحفظ اور دیگر اسباب زندگی کی فراہمی کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ اس فرض کی ادائیگی مرد کو عورت کی سرپرستی اور اس پر حکمرانی کا منصب عطا کرتی ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے "مرد عورتوں پر قوام ہیں کیونکہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت عطا کی ہے یہ اس لئے بھی کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔ پس جو عورتیں صالح ہیں، وہ مردوں کے حکم پر چلتی ہیں اور ان کی غیر موجودگی میں اللہ کی حفاظت و نگرانی میں ان کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں"۔ (سورہ النساء)
اس آیت کی رو سے مرد، عورت کی معاشی ضروریات کو پورا کرنے کا ذمہ دار ہے۔ مسلم عورت کو اگر کسی ضرورت کے تحت گھر سے باہر نکلنا پڑے تو وہ اُن حدود و قیود کو ملحوظِ خاطر رکھے جو اسلام نے اُس کے لئے مقرر کی ہیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کرے گی تو نہ صرف یہ کہ گناہ گار ہوگی بلکہ معاشرہ کی اخلاقی فضا کی تباہی کا باعث ہوگی۔
حدیثِ مبارکہ ملاحظہ ہو جس میں مسلم مردوں کو نصیحت کی گئی ہے، "دنیا سے بچنا اور عورتوں سے بچتے رہنا کیونکہ پہلا فتنہ جو بنی اسرائیل میں اٹھا تھا، وہ عورتوں میں سے تھا"۔ (صحیح مسلم - کتاب الذکر باب (359)
معلوم ہوا کہ اسلام اختلاطِ مرد و زن کو روکنا چاہتا ہے اور عورت کو گھر کی چار دیواری میں محفوظ و مستور رکھ کر عورت اور معاشرہ دونوں کو فتنہ و خرابی سے بچانا چاہتا ہے۔ میرا یہ خیال ہے کہ اگر مسلمان خواتین صرف ان دو آیات کی روشنی میں اپنے مقام و مرتبہ کو سمجھ لیں تو مردوں سے صرف انہی حقوق کا مطالبہ کریں جو ان کے خالق و مالک نے انھیں عطا کئے ہیں۔ مغرب کے آزادی نسواں کے نعروں کے فریب میں نہ آئیں جو بہر صورت ان کے لئے گمراہی و تباہی کا باعث ہیں۔