Wednesday, 15 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Khursheed Begum/
  4. Iqbal Ka Shaheen

Iqbal Ka Shaheen

اقبال کا شاہین

نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر

تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں

اقبال کا شاہین کون ہے جو ان کے کلام کی زینت ہے؟ یہ مسلم نوجوان ہے جس میں انھیں قوم کو اوجِ ثریا تک پہنچانے کی ہمت و جرأت نظر آتی ہے۔ وہ ان کی ذہنی اور اخلاقی تربیت کرکے انھیں ملک وملت کے لئے مفید بنانا چاہتے تھے۔ وہ مستقبل کے ان معماروں سے بہت توقعات وابستہ کئے ہوئے تھے۔

یہ حقیقت ہے کہ اُس دور میں بر صغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کی غلامی اور زوال نے جہاں مسلم معاشرے کے عام افراد کو بری طرح متاثر کیا وہاں نوجوان طبقہ کی ذہنی اور عملی توانائیاں بھی زنگ آلود ہوگئیں۔ شاعر مشرق نے نوجوانوں کو خواب غفلت سے بیدار ہونے اور اور فرائض کو پہچاننے کا انقلابی پیغام دیا - جوان خون کو پرجوش بنا کر اسے حصول پاکستان اور تکمیل پاکستان کے لئے ابھارا۔

محبت مجھے اُن جوانوں سے ہے

ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند

وہ اسلام کے شاندار ماضی سے واقف ہیں۔ اس لئے مسلم نوجوانوں کو اسلاف کے سیاسی، تمدنی، آئینی، علمی اور بہادری کے واقعات بتا کر انھیں متحرک اور انقلاب آفریں بنانا چاہتے ہیں جو دورٍ غلامی میں جمود کا شکار ہو چکے ہیں۔ انھوں نے "خطاب بہ نوجوانان اسلام" کے نام سے ایک پوری نظم نوجوانوں کے نام لکھی جو انکی مشہور کتاب بانگ درا میں موجود ہے۔

کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے

وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا

تجھے اس قوم نے بالا ہے آغوش محبت میں

کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاج سرٍ دارا

تمدن آفریں، خلاقٍ آئینٍ جہان داری

وہ صحرائے عرب یعنی شتر بانوں کا گہوارہ

اپنے درخشاں ماضی کی جھلک دکھا کر وہ جوانوں میں وہ جذبِ جنوں بیدار کر رہے ہیں جو ان میں حصول آزادی کی لگن پیدا کر دے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ جہاں سیاسی رہنماؤں نے اپنی سیاسی بصیرت، مذہبی رہنماؤں نے دینی بصیرت کے ذریعے بر صغیر کے مسلمانوں کو آزادی کی راہ دکھائی شاعرٍ مشرق نے اپنی شاعری کے ذریعے اُن میں حصولٍ آزادی کی روح پھونک دی۔

آزاد کا ہر لحظہ پیغامِ ابدیت

محکوم کا ہر لحظہ نئی مرگٍ مفاجات

آزاد کا اندیشہ حقیقت سے منور

محکوم کا اندیشہ گرفتارٍ خرافات

اقبال اپنی قوم کے نوجوانوں کو حصول آزادی کے بعد بھی تعمیرٍ وطن کے لئے ہمہ وقت متحرک دیکھنا چاہتے تھے۔ یوں محسوس ہوتا ہے نوجوانوں کے یہ شفیق معلم چاہتے ہیں کے ملت کے جوان اپنی شخصیت میں جفاکشی کی صفت پیدا کرکے اپنی خداداد پوشیدہ صلاحیتوں کو پروان چڑھائیں سستی اور کاہلی کو چھوڑ کر جہدٍ مسلسل اور عملِ پیہم کی راہ اپنائیں۔ حصولِ منزل کی جستجو میں راستے کی کسی رکاوٹ کو خاطر میں نہ لائیں کہ اقبال کا شاہین کبھی نہیں تھکتا۔

شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا

پُر دم ہے اگر تُو تو نہیں خطرۂ افتاد

عصرِ حاضر کے مسائل، موجودہ دور کی مشکلات کے حل اور تعمیرِ ملک وملت کے لئے فکرٍ اقبال پہلے کی طرح آج بھی رہنمائی کا فریضہ انجام دے سکتی ہے۔ یہ ایک انقلابی تحریک کے طور پر ہمیں نیا حوصلہ اور ولولہ عطا کر سکتی ہے۔ تصورِ پاکستان سے تعمیرٍ پاکستان تک کے سفر میں شاعر مشرق علامہ اقبال کے افکار تاریکی میں روشنی اور مایوسی میں عزم و حوصلے، خودی اور خود انحصاری، خود داری اور ملی بیداری کا درس دیتے نظر آتے ہیں۔ فکرٍ اقبال تعمیرِ پاکستان اور استحکامِ پاکستان کی ضامن ہے۔

خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کردے

کہ ترے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں

مفکرِ پاکستان کی شاعری کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ مایوس ہونا نہیں جانتے۔ وہ مصائب و آلام سے ٹکرانے اور جرآت و بہادری سے اُن کے مقابلے کا حوصلہ پیدا کر دیتے ہیں۔ ان کا فلسفہ عمل اور جدوجہد کا مقدمہ ہے۔ انکا پیغام ہے کہ عمل کے بغیر زندگی موت کے برابر ہے۔ اور عمل میں گامزن قومیں اللہ تعالٰی کی پسندیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ اقوامِ عالم کی نظر میں باعزت و باوقار مقام حاصل کر لیتی ہیں۔

یہی آئینِ قدرت ہے، یہی اسلوبِ فطرت ہے

جو ہے راہِ عمل میں گامزن محبوبِ فطرت ہے

دور حاضر‎ میں کلام اقبال نئے ولولے اور درست تفہیم کے ساتھ اقبال کے شاہینوں تک پہنچانے کی ضرورت ہے جو تعمیرِ ملت کے لئے اُن کی اُمیدوں کا مرکز و محور تھے۔ اسی لیے تو وہ پورے وثوق کے ساتھ کہتے ہیں

نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشتٍ ویراں سے

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

Check Also

Artificial Intelligence Aur Jaal Saz

By Mubashir Ali Zaidi