Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Khursheed Begum
  4. Ehle Gaza Ki Azeemat Ko Salam

Ehle Gaza Ki Azeemat Ko Salam

ابل غزہ کی عزیمت کو سلام

سامنا ہم تمھارا کریں کس طرح
غفلتوں میں پڑے ساحلوں پہ کھڑے

اپنی آنکھوں میں تابِ نظارہ کہاں
موجِ طوفاں سے جس طرح تم لڑے

پاسبانِ قدس کی ویڈیوز کے دلخراش مناظر اب ذہن و قلب کی برداشت سے باہر ہیں۔ لیکن ان کو دیکھے بغیر بھی رہا نہیں جاتا۔ خدا جانے وہ پہاڑ سا حوصلہ رکھنے والی مائیں کس مٹی سے بنی ہیں؟ وہ ماں زندہ ہے جو ڈاکٹر کی حیثیت سے ہسپتال میں اپنے فرائض انجام دے رہی ہے کہ اپنے ہی نو بچوں کی لاشیں وصول کرتی ہے۔ شکر ہے انھیں کفن نصیب ہو گئے ہیں۔ ایک ماں بلک رہی ہے کہ اس کے دو بیٹے روٹی لینے گئے تھے اسرائیلی فوجیوں نے گولیاں مار کر انھیں شہید کردیا، کوئی انہیں گھر پہنچا دے کہ میں انہیں کفن پہنا کر دفن کردوں۔ قیامت بپا ہے کہ ایک ماں کے سب بچے اسرائیلی بمباری سے شہید ہو گئے وہ زارو قطار روتے ہوئے کہہ رہی ہے کدھر ہے امت مسلمہ؟

خدا کے لئے ہم پر ایک دفعہ میں ایٹم بم گرادو کہ ہم سب ایک دفعہ ہی ختم ہو جائیں، ایک دوسرے کا دکھ نہ دیکھیں۔ جو ابھی زندہ ہیں بھوک پیاس سے نڈھال غیبی امداد کے منتظر ہیں تاہم اسرائیلی فوج نے رسد کے تمام ذرائع بند کر دیے ہیں۔ ذرا اُس ماں کی بے چینی کا اندازہ کریں جس کا بچہ ناشتہ کئے بغیر سکول چلا گیا ہے۔ وہ اپنا کھانا پینا بھول جاتی ہے۔ نظریں بار بار کلاک کی طرف اٹھتی ہیں کہ کب بچہ آئے اور وہ اسے کھلائے پلائے حالانکہ یہ چند گھنٹوں کی بھوک ہوتی ہے۔ ان ماؤں کی کیفیت کا تصور کریں جن کے سامنے ان کے بچے بھوک سے تڑپ رہے ہیں اور وہ ان کے لئے کچھ نہیں کر سکتیں۔

سوشل میڈیا پر موجود ستاون ممالک کے مسلمان یہ مناظر دیکھ رہے ہیں۔ کیا مجال جو ان کے خورد و نوش میں کوئی کمی آئی ہو۔ شدید گرمی کے باوجود بازاروں کی رونق دیدنی ہے۔ وزراء و امراء اے سی والے محلات اور دفتروں میں بیٹھے ٹھنڈے مشروبات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ اگر کچھ دردِ دل اور جذبۂ ایمان رکھنے والی تنظیمیں اور فلاحی ادارے اُن مظلوموں کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو وہ مجبور ہیں کہ وہاں تک نہیں پہنچ سکتے کہ وہ اقتدار کی قوت سے محروم ہیں۔ صاحبانَ اقتدار و اختیار، دولت جن کے گھر کی دیوی ہے وقت کے فرعون امریکہ سے خائف ہیں۔ بلکہ اس کی خدمت اور قدم بوسی کا شرف حاصل کرنے میں مصروف ہیں۔ شاید انہی کے بارے میں اقبال نے کہا تھا

ہاتھ بے زور ہیں الحاد سے دل خوگر ہیں
امتی باعثِ رسوائیِ پیغمبر ہیں

بت شکن اٹھ گئے باقی جو رہے بت گر ہیں
تھا براہیم پدر اور پسر آزر ہیں

قرآن کریم ہمیں انما المؤمنون اخوۃ (بے شک مومن ایک دوسرے کے بھائی ہیں ) کا درس دیتا ہے۔ پیارے نبی کا بھی فرمان ہے کہ "مومنوں کی مثال آپس کے لطف و محبت میں ایسی ہے جیسے ایک جسم جب اس کے ایک عضو میں تکلیف ہوتی ہے تو سارا جسم بے قرار ہو کر جاگتا ہے اور بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے"۔ فرمان نبوی کا مقصد یہ ہے کہ جس طرح جسم کے تمام اعضا ایک دوسرے سے متصل ہیں۔ ایک دوسرے کے درد میں شریک ہیں، اسی طرح مسلمان جن کا خدا ایک، رسول ایک، قرآن ایک اور قبلہ ایک ہے اُنہیں بھی ایک دوسرے کے رنج و راحت میں شریک ہونا چاہئیے۔

سوال یہ ہے کہ آج اہل غزہ قبلۂ اول کی پاسبانی کے لئے تنہا کیوں ہیں؟ پورا عالم اسلام خاموش تماشائی کیوں ہے؟ کیا یہ اہل فلسطین کی آزمائش ہے؟ بالکل نہیں، بلکہ رب جلیل کو اہلِ ایمان کا امتحان مقصود ہے کہ وہ اپنے دین اور اپنے رب کے بندوں کے لئے کس قدر مخلص ہیں لہذا اس معرکۂ حق و باطل میں ہم میں سے ہر ایک کو اپنی صلاحیت و ہمت کے مطابق کام کرنا ہے۔ زبان و قلم سے، مال و دولت سے اور سجدہ و دعا سے اللہ کے ان محبوب بندوں کی مدد کرنا ہےجو اپنا تن من دھن سب کچھ قبلۂ اول پر نثار کر رہے ہیں۔

اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے آس پاس کے عوام کو اس کی ترغیب دیں۔ سوشل میڈیا پر موجود ساتھی مؤثر طریقے سے بیت المقدس اور مسجد اقصی پر اپنا حق ثابت کرنے کے ساتھ ساتھ صیہونیت کا مکروہ چہرہ بے نقاب کریں۔ اہل عالم کو مسئلہ فلسطین کی حقانیت سے آگاہ کریں اور فلسطینی مسلمانوں کے حق میں رائے عامہ ہموار کریں۔ گویا کہ دعا کے ساتھ ساتھ دوا کا اہتمام بھی ضروری ہے۔

حرفَ آخر کے طور پر صرف اتنا عرض کروں گی۔

غارت گری اہلِ ستم بھی کوئی دیکھے
گلشن میں کوئی پھول نہ غنچہ نہ کلی ہے

کب اشک بہانے سے کٹی ہے شب ہجراں
کب کوئی بلا صرف دعاؤں سے ٹلی ہے

Check Also

Bani Pti Banam Field Marshal

By Najam Wali Khan