Ahle Kashmir Ke Jazba e Azadi Ko Salam
اہل کشمیر کے جذبہ آزادی کو سلام
شاعر کے تخیل سے کہیں بڑھ کے حسیں تھا
کشمیر کبھی حسن کے جلووں کا امین تھا
افسوس نظر کھا گئی کس شوم کی اس کو
یہ قریۂ گل بھی کبھی خلد بریں تھا
بلا شبہ کشمیر اقوام متحدہ کا سب سے پرانا غیر حل شدہ تنازعہ ہے۔ یہ پاکستان اور بھارت کے مابین ایک سرحدی تنازعہ نہیں جیسا کہ بھارت ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے، بلکہ انسانی حقوق کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ لہذا غیر مسلم دنیا کے روبرو اسے انسانی حقوق کے مسئلہ کے طور پریش کر کے ہی ہم انکی ہمدردی اور حمایت حاصل کر سکتے ہیں۔ بھارت کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہتا ہے، دوسری طرف ہم پاکستانی کشمیر کو اپنی شہ رگ قرار دیتے ہیں اور ہمارا نعرہ ہے کشمیر بنے گا پاکستان "۔
ہم سب واقف ہیں کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو پاکستان اور بھارت دونوں میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کرنے کا حق ہے۔ تمام انصاف پسند فریق اس بات پر متفق ہیں کہ بھارت خود اس معاملے کو اقوام متحدہ میں لے کر گیا اور خود ہی اس عالمی ادارے کی قراردادوں پر عمل کرنے سے گریزاں ہے بلکہ اب تو اس نے (2019 میں) اپنے آئین سے دفعہ 370 خم کر کے کشمیر کو یکطرفہ طور پر بھارت کا حصہ تصور کر لیا ہے۔ قابل توجہ بات ہے کہ اس انتہائی نا انصافی پر اقوام عالم بالکل خاموش ہیں۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ ہم کشمیر کا مقدمہ صحیح طور پر اہل عالم کی عدالت میں پیش نہیں کر سکے۔
ہمار ا شاطر دشمن ہمارے مقابلے میں علم و تحقیق کے میدان میں اور ڈپلومیسی کے میدان میں ہم سے کہیں آگے ہے۔ اسلئے دنیا کے سامنے اپنے موقف کو ہم سے زیادہ بہتر طور پر رکھ سکتا ہے۔ وہ یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہے کہ کشمیر میں حالات بالکل ٹھیک ہیں حقیقت یہ ہے کہ ہم ہر سال 5 فروری کو کشمیریوں کے حق میں جلسے جلوس اور ریلیوں سے مسئلہ کشمیر کو زندہ نو رکھ سکتے ہیں لیکن اس مسئلہ کو حل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔
اس معاملے میں ضروری ہے کہ میڈیا اور تحقیق کے ہتھیاروں سے لیس ایک بڑی علمی ٹیم تیار کی جائے جو عالمی رائے عامہ کو ہمارے حق میں ہموار کرنے کے لئے ہر اول دستے کا کردار ادا کر سکے کیونکہ جب تک ہم ان سے عالمی اور انسانی اقدار کی اصطلاحات میں بات کرنا نہیں سیکھیں گے، اُن تک اپنا پیغام نہیں پہنچا سکیں گے۔ البتہ عالم اسلام کو ہم بحیثیت امت مسلمہ کشمیر کاز پر متحد کر سکتے ہیں کیونکہ
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر
کے مصداق اگر مسلم امہ متحد ہو جائے تو بھارت پر دباؤ ڈال کر کشمیریوں کا حق خودارادیت تسلیم کروا سکتی ہے۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی اتنی کمزور ھے کہ ابھی تک مسلم دنیا کو اس مسئلے کی نزاکت سے آگاہ نہیں کر سکی۔ یہ کام ارباب اقتدار کا ہے جو 75 سال سے اس سے غافل ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پرتعیش کوٹھیوں اور بنگلوں میں رہنے والے اور نرم گرم بستروں پر سونے والے کیا جانیں کہ مظلوم کشمیریوں پر کیا قیامت گزر رہی ہے؟ جو اپنے وطن میں اپنے ہی گھروں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔ ایک معرکہ کرب و بلا وہاں بپا ہے۔
مقبوضہ کشمیر کے ایک صحافی شہزاد نے جنوری 2018 میں ایکسپریس نیوز کو انٹرویو دینے ہوئے کہا "میں نے مسئلہ کشمیر پر پاکستانی سینٹ کی پوری کاروائی دیکھی۔ بات شروع تو کشیر سے ہوئی لیکن اسکے بعد مختلف لیڈروں نے ایک دوسرے پر الزامات لگانا شروع کر دیئے اور تقریبا سارا وقت کشمیر کے بجائے سینٹ کی کاروائی اسی پر مرکوز رہی"۔
فروری 2015 میں کشمیر کے مرد مجاہد مرحوم سید علی گیلانی نے الدعوہ تنظیم کے مجلہ "الحرمین" کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں کہا "پاکستان کی حکومت اور سیاسی قیادت جموں کشمیر کے بارے میں بھانت بھانت کی بولیاں بولتی ہے، ہم نے ان سے باربار کہا ہے کہ آپ اپنے موقف پر ڈٹے رہیں جموں کشمیر متنازعہ خطہ ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں جنکی تعداد اٹھارہ ہے، ان پر بھارت اور پاکستان دونوں نے دستخط کئے ہیں۔ عالمی برادری اس پر گواہ ہے اور وہی بنیاد ہے ہمارے جموں کشمیر قضیے کی۔ اس پر پاکستان کو چٹان کی طرح ڈٹے رہنا چاہئے۔ کبھی مایوسی کا شکار نہیں ہونا چاہیے اور کبھی اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہئے۔
صدر مشرف نے چار نکاتی فارمولا پیش کیا تھا اُنکے اس وقت کے جو وزیر خارجہ تھے وہ اب بھی کہتے ہیں کہ ہم بھارت کے ساتھ خفیہ طور پر بات چیت کر رہے ہیں اور کچھ حل نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ سب چیزیں کشمیر کے عوام کی عظیم قربانیوں کے خلاف ہونگی اور ان قربانیوں اور زخموں پر نمک پاشی ہوگی۔ اگر خود ارادیت اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عملدرآمد کے بغیر کوئی اور حل تلاش کرنے کی کوشش کی گئی تو کشمیری اُسے قبول نہیں کریں گے"۔
ان سے سوال کیا گیا کہ 5فروری کے حوالے سے پاکستان کے عوام کو کیا پیغام دیں گے؟ جواب میں اُنھوں نے فرمایا "پانچ فروری کے حوالے سے سب سے پہلے قاضی حسین احمد کو خراج عقیدت پیش کروں گا، اللہ تعالٰی انکی مغفرت فرمائے کہ پانچ فروری کا پرو گرام ان کا ایجاد کردہ ہے۔ 5فروری کو جموں کشمیر کے عوام کے ساتھ یک جہتی کا جو مظاہرہ کیا جاتا ہے، اسکے لئے ہم پاکستانی عوام اور حکومت کے شکر گزار ہیں۔
لیکن اسکے ساتھ ہم یہ امید رکھتے ہیں کہ حکومت پاکستان مظلوم کشمیریوں کے ساتھ رسمی اظہار یک جہتی سے اب کچھ آگے بڑھے۔ جموں کشمیر کا مسئلہ حکومت پاکستان، آزاد کشمیر اور پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام کے پاس امانت ہے۔ اس امانت میں کسی طرح خیانت نہ کی جائے کبھی مایوس نہ ہوا جائے۔ اللہ تعالٰی پر توکل کر کے حق و صداقت کا ساتھ دیا جائے"۔
لیکن پاکستانی حق وصداقت کے حامی توتب ہونگے اگر وہ اپنے ازلی دشمن کو پہچانیں گے۔ وہ تو اسی دشمن کی تہذیب و ثقافت کے دلدادہ نظر آتے ہیں۔ فلمیں، ڈرامے اور ویڈیوز اسی قریبی ہمسایے کی دیکھتے ہیں۔ شادی بیاہ اور خوشی و غمی کی رسمیں بھی اسی سے لیتے ہیں۔ انکی بولی بولتے ہیں۔ پھر مظلوم کشمیریوں کی دلخراش چیخیں انھیں کیونکر سنائی دیں گی؟ پھر ان کے لئے فکر مندی کیسی؟
صرف کچھ مذہبی تنظیمیں گاہے گاہے اہل کشمیر کے حق میں اواز بلند کرتی ہیں جن میں نمایاں آواز جماعت الدعوۃ اور جماعت اسلامی کی ہے۔ جماعة الدعوہ کو تو بھارت کے خوف سے خاموش کروا دیا گیا ہے۔ اب ملک میں حکومتی، عوامی، سیاسی اور سوشل سیکٹر کے حلقوں میں تو انا آواز صرف جماعت اسلامی کی ہے جو مسئلہ کشمیر کو زندہ رکھنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ ادیب اور شاعر بھی اپنے انداز میں اس جماعت کے ہم نوا ہیں۔ پروفیسر محمد انور سعید کا دل فگار کلام ملاحظہ ہو
آزادی کشمیر کا مہتاب چرا لے گئے قزاق
شب زادوں نے خورشید پر شب خون ہے مارا
اس جرم کی تعزیر کوئی ہے کہ نہیں ہے
اقوام جہاں فیصلہ دیں کچھ تو خدا را