Saturday, 05 April 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Khursheed Begum
  4. 23 March 1940 Aik Tareekh Saz Din

23 March 1940 Aik Tareekh Saz Din

23 مارچ 1940ء ایک تاریخ ساز دن

عزم جو لے کے اٹھے ادھورا نہ رہا
عہد جو ہم نے کیا تھا نبھا کے چھوڑا

خواب دیکھا جو مرد قلندر نے کبھی
ہم نے تابندہ حقیقت بنا کے چھوڑا

پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو (المسلمون أمة واحدة) کے معروف نظریہ کی اساس پر معرض وجود میں آیا۔ کہنے کو تو یہ نظریہ چودہ سو سال پرانا ہے لیکن خالقِ کون ومکاں کا نظریہ ہونے کے سبب یہ اپنے اندر ہر دور کے انسانوں کے لئے امن اور فروغ کا سدا بہار پیغام ہے۔

عہد حاضر میں اس نظریہ کی آبیاری علامہ اقبال کے زندہ و شگفتہ افکار نے کی اور ان فکری گوشوں کو سمیٹ کر جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے لئے ایک مخصوص جغرافیائی خرمن قائداعظم نے ترتیب دیا۔ البتہ اس خرمن کا ابتدائی خاکہ چوہدری رحمت علی کی مجتہدانہ آراء کا مرہون منت ہے۔ چوہدری رحمت علی کا نام آتے ہی ذہن 23 مارچ 1940ء سے پہلے کے دور کی طرف لوٹتا ہے۔

بیسویں صدی کے آغاز نے منتشر ہندی مسلمانوں میں مختلف تنظیموں اور انجمنوں کی شکل میں یکجہتی کا احساس ابھرتے دیکھا۔ تین دہائیوں تک یہ احساس مختلف دردمند قائدین اور مفکرین کی تجاویز کی شکل میں آگے بڑھتا رہا اور آخر 1930ء میں اقبال کے ملت ساز خطبہ الہ آباد کی صورت میں سامنے آیا۔ 1933ء میں چوہدری رحمت علی نے اسے واضح خدوخال دیئے۔ لیکن کاروان احساس کے سفر کا یہ موڑ انتہائی خطرناک ثابت ہوا۔

نادان دوستوں اور دانا دشمنوں نے اس موڑ پر فکری اور منطقی شکوک و شبہات کی رکاوٹیں کھڑی کردیں اور قافلے والوں کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لئے بھرپور قلمی یلغار کا آغاز کردیا۔ ان حالات میں اللہ تعالٰی نے اپنے نام لیواؤں کے لئے روشنی کا سامان کیا کہ انھیں محمد علی جناح جیسا نڈر، بےباک اور مخلص رہنما نصیب ہوا۔ آپ نے مسلم لیگ کی قیادت کیا سنبھالی کہ جداگانہ قومیت کا جذبہ جو بہت دیر سے ہندوستان میں پرورش پا رہا تھا 1940ء میں جوان ہوگیا۔ پھر وہ وقت بھی آگیا کہ اسلامیان ہند نے اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے کا اعلان کردیا۔ ایک تاریخی فیصلہ جو اقبال پارک لاہور میں اپنے دائمی نقوش ثبت کر گیا۔

مینار پاکستان کی عظمت آج بھی مسلم لیگ کے 23 مارچ 1940ء کے اس اجلاس کی گواہ ہے جس میں قائداعظم محمد علی جناح نے صدر مجلس کی حیثیت سے دوٹوک انداز میں فرمایا "مسلمان اقلیت نہیں جیسا کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ اس کے لئے آپ کو صرف گرد و پیش پر نظر ڈالنا ہوگی۔ آج بھی ہندوستان کے برطانوی نقشوں کے مطابق گیارہ صوبوں میں سے چار صوبے جہاں کم و بیش مسلمانوں کی اکثریت ہے ہندو کانگریس ہائی کمان کے عدم تعاون اور سول نافرمانی کے فیصلے کے باوجود معمول کے مطابق کام کر رہے ہیں۔ قوم کی خواہ کوئی بھی تعریف کی جائے مسلمان اس تعریف کے مطابق ایک قوم ہیں۔ ان کا اپنا وطن، اپنا علاقہ اور اپنی مملکت ہونی چاہئے۔

ہم ایک آزاد اور خودمختار قوم کی حیثیت سے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ امن و اتفاق سے رہنا چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری قوم اپنی پسند اور امنگوں کے مطابق، اپنے معیار اور نصب العین کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی روحانی، ثقافتی، اقتصادی، سماجی اور سیاسی زندگی کو بہترین اور بھرپور طریقے پر ترقی دے سکے۔ دیانتداری کا تقاضا یہ ہے کہ ہماری قوم کے کروڑوں افراد کے مفادات ہم پر یہ مقدس فرض عائد کرتے ہیں کہ ہم ایک ایسا باعزت اور پرامن حل تلاش کریں جو سب کے لئے جائز اور منصفانہ ہو۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں دھمکیوں کے ذریعے اور خوفزدہ کرکے اپنے مقصد اور نصب العین سے نا تو ہٹایا جاسکتا ہے اور نہ ہی منحرف کیا جاسکتا ہے۔ ہم نے جو منزل اپنے لئے مقرر کی ہے اس کی خاطر ہمیں مطلوبہ قربانیاں دینے اور مصائب جھیلنے اور نتائج کو بھگتنے کے لئے تیار رہنا چاہئے"۔

ارادے جن کے پختہ ہوں، نظر جن کی خدا پر ہو
تلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے

قائداعظم کے اس بصیرت افروز بیان کے بعد مولوی ابو القاسم فضل الحق نے قرارداد پاکستان پیش کی جس کا متن حاضر خدمت ہے۔

"آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ اجلاس مجلس عاملہ کی ان قراردادوں کی توثیق کرتا ہے جو دستور کے بارے میں 17، 18 اور 22 اگست، 22 اکتوبر 1939ء اور 3 فروری 1940ء کو منظور کی جاچکی ہیں۔ آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ اجلاس پرزور طریقے سے اس امر کا اعادہ کرتا ہے کہ انڈیا ایکٹ مجریہ 1935ء کے تحت وفاقی طرز حکومت اس ملک کے حالات کے پیش نظر نامناسب اور غیر ممکن العمل ہے۔ مسلمان اسے قبول نہیں کرتے۔

آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس کی تجویز ہے کہ کوئی دستوری مسودہ اس وقت تک مسلمانوں کے لئے قابل قبول اور اس ملک میں قابل عمل نہ ہوگا جب تک اس میں بنیادی امور کو شامل نہ کیا جائے۔ جغرافیائی لحاظ سے متصل وحدتوں کی اس طرح حدبندی کی جائے کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، خودمختار ریاستیں قائم ہوجائیں۔ ان وحدتوں میں آباد اقلیتوں کے مذہبی و ثقافتی، سیاسی، انتظامی اور دوسرے معاملات کے تحفظ کے لئے ان کے مشورے سے دستور میں تسلی بخش اور کافی انتظامات کئے جائیں۔ اس طرح ہندوستان کے جن خطوں میں مسلمانوں کی اقلیت ہے، وہاں دستور میں ان کے اور دوسری اقلیتوں کے مشورے سے ایسے انتظامات کئے جائیں کہ ان کے مذہبی، ثقافتی، اقتصادی، سیاسی اور دوسرے مفادات کا تحفظ ہوسکے۔

یہ اجلاس مجلس عاملہ کو اختیار دیتا ہے کہ مذکورہ بالا بنیادی اصولوں کے تحت ایک ایسا دستوری منصوبہ تشکیل دے جس میں ان مجوزہ علاقوں کو دفاع، امور خارجہ، رسل و رسائل اور محصولات نیز دوسرے امور کے مکمل اختیارات حاصل ہوں"۔

عزیز ہم وطنو۔۔!

یہ قرارداد تحریک پاکستان میں ایک سنگ میل اور نشان منزل کی حیثیت اختیار کر گئی۔ مسلمانان ہند کی منزل متعین ہوگئی۔ (لا إله إلا الله) کا نعرہ نظریہ پاکستان بن گیا۔ بابائے قوم کا یہ ارشاد "وہ کونسا رشتہ ہے جس میں منسلک ہونے سے مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں، وہ کونسا لنگر ہے جس پر اس امت کی کشتی محفوظ کردی گئی ہے، وہ کونسی چٹان ہے جس پر ان کی ملت کی عمارت استوار ہے؟ وہ رشتہ، وہ لنگر، وہ چٹان، اللہ کی کتاب قرآن ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جوں جوں ہم آگے بڑھتے جائیں گے ہم میں زیادہ اتحاد پیدا ہوجائے گا۔ ایک اللہ، ایک رسول، ایک کتاب اور ایک امت"۔

ان کے لئے رہنما اصول بن گیا۔

پھر کیا ہوا؟ دنیا والوں نے دیکھا کہ سات سال کے مختصر عرصہ میں دیوانے کا خواب حقیقت بن گیا۔ ایک بڑی اسلامی مملکت دنیا کے نقشے پر ابھری۔ لیکن زمانہ گواہ ہے کہ ازادی کی یہ نعمت بیش بہا قربانیوں کے بعد حاصل ہوئی۔ فلک نے وہ خون آشام مناظر دیکھے کہ اس کا کلیجہ شق ہوگیا۔ مگر مسلم قوم کے اندر حصول آزادی کے جذبے نے ہر حادثے کو برداشت کرنے کی صلاحیت پیدا کردی تھی۔ جس نے شکستہ دل تھام رکھے تھے۔

ہمارا خون بھی شامل ہے تزئین گلستان میں
ہمیں بھی یاد کر لینا چمن میں جب بہار آئے

عزیز ہم وطنو!

یوم پاکستان کے موقع پر ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ کیا اس چمن میں بہار آئی ہے یا آزادی کی 76 بہاریں دیکھنے کے بعد بھی یہ خزاں رسیدہ ہے؟ کیا نظریہ پاکستان ہمارے دلوں میں زندہ ہے یا مردہ ضمیر نے اسے تھپک کر سلا دیا ہے؟ (لا إله إلا الله) کا نعرہ جو تحریک آزادی کی جان تھا کیا وہ ہمارا نظام زندگی بن گیا ہے؟

افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آزادی کے بعد ہم وہ وعدہ بھول گئے۔ اس لئے آج تک زبوں حالی کا شکار ہیں، غربت، بےروزگاری، مہنگائی، ناانصافی و بدامنی اور بےسکونی کا دور دورہ ہے۔ تو آئیے پھر اس بار 23 مارچ کو یوم پاکستان مناتے ہوئے یہ عہد کریں کہ اس مملکت خداداد میں اسی خدا کا پسندیدہ نظام نافذ کرنے کے لئے ہر ممکن سعی کریں گے۔ تاکہ اس زبوں حالی سے نکل سکیں اور اقوام عالم کی صف میں ایک اعلٰی اور ارفع مقام حاصل کر لیں۔

اجڑے ہوئے گلشن میں بہار آئے گی لیکن
اخلاص کو، ایثار کو، میزان بناؤ

سینوں کو کرو شعلۂ ایمان سے روشن
اس جادۂ پر خار کو گلزار بناؤ

Check Also

Waqt Badal Jata Hai

By Syed Mehdi Bukhari