Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Khateeb Ahmad
  4. Thak Gaya Hoon Ab

Thak Gaya Hoon Ab

تھک گیا ہوں اب

اب میں پاء جی ہوں۔ چھوٹے بہن بھائیوں کا۔ ابو جی چوہدری کہتے ہیں۔ ماں کی بھی آنکھوں کا تارا ہوں۔ حالات کی تنگی کے باعث اور بھی کزن روزی کی تلاش میں دیار غیر کو نکلے میں بھی چل پڑا۔ لیبر کلاس ویزہ پر سعودیہ آیا۔ روم میٹس کرین آپریٹر تھے۔ انہوں نے اپنا ہیلپر رکھ لیا۔ ماہانہ ہزار بارہ سو ریال کھا پی کے بچ جاتا تھا۔ پہلا ویزہ ختم ہوا تو دوسرا ویزہ کرین آپریٹر کا لگوا لیا۔ میں تب تک کرین چلانا مکمل سیکھ چکا تھا۔ پھر بھی قانون کے مطابق لائسنس لیا اور پچاس ٹن کیرین سے آپریٹری کا کیرئیر شروع کیا۔ آج پانچ سو ٹن تک کرین چلا لیتا ہوں۔ گیارہ سال کا سفر ہے۔ ویسے ابھی 220 ٹن کی کرین چلا رہا ہوں۔ شرکہ اچھا ہے۔ سات ہزار بیسک تنخواہ ہے۔ دس گھنٹے ڈیوٹی پلس اوور ٹائم اور جمعہ آن ہو تو اس کے بھی پیسے۔ نو دس ہزار تک ماہانہ آمدن ہے۔

پہلے چچا تایا نے جو تھوڑی بہت زمین بیچی وہ خریدی۔ پھر کوٹھی بنائی۔ پھر گاڑی لی۔ پھر بہنوں کی شادی اوقات سے بڑھ کر کی۔ پھر ستر لاکھ روپے لگا کر ایک بھائی کو لندن بھیجا ورک پرمٹ پر۔ ان گیارہ سالوں میں قسم کھا سکتا ہوں میری ایک بھی کام سے چھٹی نہیں۔ کوئی نہیں مجھے کہتا کہ تم چھٹی آؤ۔ جب بھی بہنوں کی شادی پر دادا جی کی وفات پر یا ایک جگری یار کی شادی پر۔ گیارہ سال میں گیارہ ماہ بمشکل بنیں گے۔

تھک گیا ہوں اب۔ عمر کے پینتسویں سال میں ہوں۔ شادی تو دور منگنی بھی نہیں ہوئی۔ باپ کا فخر ہوں کہ جو زمین بکتی ہے وہ لے سکتے ہیں۔ ماں اپنی بیٹیوں کے سسرالوں میں انکا سر اونچا رکھنے کے لیے ہر خوشی غمی پر لاکھوں اڑا آتی ہے۔ بھائی آئی فون پر ٹک ٹاک بناتے اور دیکھتے ہیں۔ یوکے والا وہاں رو رہا کہ یہاں میرا ویزہ انکے بزرگوں کو نہلانے دھلانے اور انکو پیمپر لگانے کا ہے۔ یہ کام میں نہیں کر سکتا۔ یہاں مہنگائی بھی بہت ہے۔ کچھ نہیں بچتا۔

میرا کام ہے۔ وزن اٹھانا۔ یہاں ٹنوں کے حساب سے وزن کی مینجمنٹ کرنا ہوتا ہے کہ وزن اٹھایا جائے اور کرین کلٹی نہ کھا جائے۔ یہاں آئے روز کرینیں الٹتی ہیں۔ بڑا نام میرے مالک کا ہے۔ اس اللہ رب العزت کا ہے۔ سو ٹنی کرین سے ساٹھ ٹن وزنی پتھر اٹھا کر رکھے ہیں۔ یہ کام دو سو ٹن والوں کا تھا اور ان میں سے بھی کئیوں نے اپنے جیک توڑے ہیں۔

یہاں جو کام میری کرین کرتی ہے۔ پاکستان ہمارے گھر میں وہ کام میں کرتا ہوں۔ سارا وزن مجھے اٹھانا ہوتا ہے۔ اس وزن کی مینجمنٹ کرنا اور پھر دیکھنا کہ وزن کو کہاں سے اٹھا کر کہاں رکھنا ہے۔ مشین نہیں تھکتی مگر انسان تھک جاتے ہیں۔ میں بھی اب تھک گیا ہوں۔ سب اپنی مستی میں ہیں۔ ماں تو سب کی سانجھی ہوتی ہے۔ اسے تو سب بچے عزیز ہوتے ہیں۔ مگر ہم پردیسیوں کی ماؤں کے وہ ہی بچے ہوتے ہیں جو انکے پاس ہوں۔ یا انکا سب انکی بیٹیاں ہوتی ہیں۔ انہوں نے انکے ہی گھر بھرتے رہنا ہوتا ہے۔ بس ان کا وہاں رعب بنا رہے بلے بلے بنی رہی اور بیٹوں کی چاہے جو بھی حالت ہو۔

میں نے جتنا پیسا کمایا۔ آدھا بھی اپنے پاس رکھا ہوتا تو میری آج تین چار کرینیں اپنی ہوتیں۔ میں یہاں ان کا فورمین ہوتا اور ماہانہ ایک لاکھ ریال بڑے آرام سے کما رہا ہوتا۔ میرے سے بعد میں آنے والے ایک بھائی اپنی یہاں آپریٹری کی کمائی سے دو پچاس ٹنی کرینیں بنا چکے ہیں۔ آج پاکستان چلا جاؤں سب چھوڑ کر تو چھ ایکڑ زمین سے کیا آمدن آئے گی؟ روڑ پر چھ دکانیں ہیں دو ہزار ایک دکان کا کرایہ۔ رونا نہیں ہنسی آتی ہے کہ گیارہ سال۔ نہ دن دیکھا نہ رات۔ محنت کی۔ بہت زیادہ۔ خون پسینے کا رزق حلال کمایا۔ جن لوگوں نے یہ فیلڈ دکھائی ان کو ہمیشہ پیروں جیسی عزت دی۔ اب ہمت جواب دے چکی ہے۔ موٹی ویشن نہیں ملتی۔ شادی کراؤں یا کرین لینے کے لیے پیسے جمع کروں؟

شادی بھی بڑی ہونی ہے گھر والے کہتے چالیس پچاس لاکھ لگنا ہے۔ میں نے کسی کو نہیں بتایا مگر مجھے معلوم ہے کہ بس پانچ لاکھ روپے میں گھر کے افراد میں ہی شادی کرکے اپنی اور ابا جی کی ناک کٹوا دینی ہے۔ اماں کسی ایم این اے، ایم پی اے کی بھانجی بھتیجی بیاہنے کے چکروں میں ہے۔ میری بھولی ماں ایک کرین آپریٹر کی اتنی حیثیت نہیں ہوتی کوئی محلوں پلی رانی کے ناز نخرے اور خرچے اٹھا سکے۔ ان کو وہ سب ملا جو انہوں نے مانگا تو ان کو لگتا ہے میں یہاں بہت بڑا شیخ ہوں۔ بہت بڑا سرپرائز ہے اماں کے لیے بھی۔ وہ لڑکی دیکھنی ہے جسے پانچ سو ریال ماہانہ جیب خرچ ملے تو وہ خوشی سے پھولی نہ سمائے۔ بڑے گھروں میں جاکر خود کو مزید مشکل میں نہیں ڈالنا نہ چھوٹا بننا ہے۔

دو ماہ قبل گھر بتایا کہ بس تین ہزار بھیجا کروں گا۔ گھر خرچ۔ باقی خود دیکھوں گا کیا کرنا ہے۔ بھائی بہنیں تو الگ سب سے زیادہ ناراض اماں ابا ہوئے کہ ان کے اب وہ پہلے والے ٹور ٹپے نہیں رہیں گے۔ اندر سے ناراض ہیں میرے ساتھ۔ کیا کہوں یار۔ سنا تھا والدین سب بچوں سے ایک سا پیار کرتے ہیں۔ مگر یہ اپنی کہانی میں جھوٹ نکلا۔ میرے ریالوں سے پیار تھا۔ جو سونا بھیجتا تھا اس سے پیار تھا، بھائیوں کو آئی فونز سے پیار تھا۔ ہر ماڈل کی نئی ون ٹو فائیو کی بھڑک سے پیار تھا۔ وہ سب اب نہیں ہوگا۔ تو میں بدل گیا ہوں۔

حالانکہ بدلے وہ سب ہیں۔ نقصان کا تخمینہ لگا رہا ہوں۔ کہ پیسے ہی گنوائے ہیں یا گھر والوں کو کھو دینے کا نقصانی مالی نقصان سے زیادہ بڑا ہے۔ کیا پھر سے ان سب کی اے ٹی ایم مشین بن جاؤں؟ وہ سب دوبارہ مجھے سر آنکھوں پر بٹھا لیں۔ بٹھا بھی لیں مجھے تو اب بیٹھنا ہی نہیں۔

کولہو کا بیل اب مزید نہیں بن سکتا۔ زمیندار گھرانے میں دودھ چاول گندم سب وافر گھر ہے۔ سولر لگا ہوا بجلی بلکل فری بارہ کلو واٹ کا سسٹم گرین میٹر والا۔ دو لاکھ پچیس ہزار ماہانہ دو اماں ابا اور ایک بہن اور دو بھائیوں کے کیے کافی نہیں؟ بھائی ماشااللہ جوان ہیں۔ بس وقت ضائع کر رہے کہ ایک بھائی یوکے ہے دوسرا سعودیہ۔ سوچا ہے وہ بھی اب کچھ کریں۔ بہت مزے کر لیے۔ جو اب بیرون ملک جا رہے۔ ان کا سوچ کر دل دکھتا ہے۔ کہ انکے ساتھ بھی یہی سب کچھ ہونے والا ہے۔ ان کو کوئی آج جتنا بھی سمجھا لے نہیں سمجھیں گے۔ نہ وہ سمجھیں گے نا انکے اہل و عیال اپنا شملہ اونچا کرنے اور خود کو آسائشوں میں لیجانے سے رکیں گے۔

مڈل کلاسیوں کی زندگیاں بس اسی پاتال میں گھوم رہی ہیں۔ نجانے کب یہ سوچ بدلے گی۔ کہ مزدوری کرکے اچھی اجرت ملے تو کاروبار کرنا چاہیے۔ کہ آنے والے وقت میں ہمیشہ مزدوری نہ کرنی پڑے۔ بھائیوں کو اس قابل بنانا چاہئیے کہ وہ بھی عملی زندگی جلد از جلد شروع کریں۔ نہ کہ سب کو آسائشیں دے کر سب سے پہلا اپنا اور پھر سب کا نقصان کر دیا جائے۔ ایسا نقصان جسکی تلافی میں نجانے کتنے رشتے کھو جائیں اور تو اور ماں باپ بھی منہ موڑ لیں۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam