Saturday, 21 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Khateeb Ahmad
  4. Special Bache Ke Naam Par Bheek Mangne Wale

Special Bache Ke Naam Par Bheek Mangne Wale

سپیشل بچے کے نام پر بھیک مانگنے والے

میری زبان میں تھوڑی نہیں کافی زیادہ تلخی ہے۔ غلط بات برداشت نہیں ہوتی اور نہ دل میں منافقت پال سکتا ہوں۔ اس کی وجہ سے کئی دوست گنوائے ہیں۔ جہاں اس خامی کے کئی نقصان ہوئے وہیں چند فائدے بھی ہوئے ہیں۔ دو دسمبر کو میں نے ایک کہانی لکھی جو پہلے کمنٹ میں دے رہا ہوں۔ ایک سپیشل بچے کے والد کے متعلق کہ وہ کروڑوں کی پراپرٹی میں بیٹھ کر امداد اور خیرات لے رہے تھے۔ بس سوچ یہ بن چکی تھی کہ کچھ کرنا نہیں ہے۔

تین دسمبر کو اس بچے کو جب میں وہیل چیئر دینے گیا تو اس بچے کے والد کو سمجھایا کہ دیکھو یہ جو تم بھکاری کا روپ دھارے بیٹھے ہو اپنی اگلی نسل کو منگتا بنا دو گے۔ جوان ہو، صحت مند ہو یہ ایک ٹکی ٹافی کی دوکان چلانا اور خود کو بڑا حالات کا مارا ہوا ظاہر کر کے ہمدردیاں اور چند ٹکے حاصل کرنا تمہیں زیب نہیں دیتا۔ یہ کوئی غیرت مندانہ انداز نہیں ہے۔ اور میرے ان سخت الفاظ پر مجھے معاف بھی کر دو کہ مجھے تم سے اس طرح بات کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ تمہارے بچے کو ایک تیس ہزار کی وہیل چیئر دے کر تمہیں ایسا لیکچر دینے کا مجھے جواز نہیں مل گیا۔ میں تم سے تمہارے اس سپیشل بچے کی وجہ سے بہت محبت کرتا ہوں۔ یہ تمہارا بیٹا میرا بھی بیٹا ہے۔

جب والدین ہی منگتے بن چکے ہوں تو اولاد ان سے کیا سیکھے گی؟ والد اپنی اولاد کا سب سے پہلا رول ماڈل ہوتا ہے۔ اور یہ تو معذور ہے بھیک یا امداد کو اپنا حق سمجھے گا۔ تمہارے ابا بھی کیا کسی کے آگے ہاتھ پھیلاتے تھے؟ اس نے کہا بالکل بھی نہیں۔ ابا نے تو ہمیشہ غریبوں کی مدد کی۔ ہمیں پڑھانے کی بھی بہت کوشش کی مگر ہم بھائی ہی نالائق تھے۔ گھر میں مالی فراوانی تھی تو ہم محنت کرنا سیکھ نہ سکے۔ جب ابا کی وفات ہوئی تو جائیداد کے بٹوارے ہوئے اور ہم دن بدن نیچے چلے جاتے رہے کہ کچھ کمانا تو گھر چلنے تھے مگر ہاتھ میں نہ کوئی ہنر تھا نہ تعلیم اور نہ کوئی کام کرنے کا شعور۔ شادی ہوئی بچے ہوئے اور مالی حالات اور ابتر ہو گئے۔

ابھی کچھ دیر پہلے مجھے سعودیہ کے ایک نمبر سے کال آئی اور کال پر وہی بندہ تھا۔ اس نے روتے ہوئے بتایا کہ میری کڑوی کسیلی باتیں وہ دل پر لے گیا تھا۔ اول تو مجھ سے نفرت ہوئی اور وہیل چیئر واپسی کا سوچا مگر باتیں سچ تھیں۔ تو سچ ہڈ حرامی پر غالب آیا اور اپنی مین بازار میں موجود دوکان 5 لاکھ ایڈوانس اور 10 ہزار ماہانہ کرایہ پر دے دی۔ ان پیسوں سے ارجنٹ پاسپورٹ بنوایا۔

ایک دور کے رشتہ دار سے سعودیہ کا لیبر ویزہ خریدا اور دو ہزار ریال تنخواہ پر 17 جنوری کو سعودیہ آ گیا۔ آج اس نے گھر اپنی پہلی تنخواہ میں سے بارہ سو ریال تقریباً 85 ہزار روپے بھیجے ہیں اور مجھے کہا ہے کہ کل جمعہ کے بعد اسکے گھر جا کر اسے ایک وہیل چیئر کے پیسے لے کر کسی مستحق بچے کو دے دوں۔ اور جو بچے اسکے محلے میں آوارہ گردی کرتے تھے ان کو بھی وہ سکول داخل کروانے کا فیصلہ کر چکا ہے۔

کسی کی مدد کرنے میں ہمارے پاس دو آپشن ہوتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ جی ہم تو اللہ کی رضا کے لیے کر رہے ہیں۔ جس کو دے رہے وہ نہیں دیکھنا جس کے نام پر دے رہا اجر اس سے ملنا ہے۔ یہ رویہ مناسب نہیں ہے۔ یہ چیز اگلے بندے کو کچھ بھی کرنے جوگا نہیں چھوڑتی۔ اور وہ خود کو غریب لاچار اتنی بیٹیوں کو باپ معذور بچے یا بچوں کا باپ سمجھ کر اپنی خودی کا گلہ گھونٹ کر امداد و خیرات کی نفسیات میں جینے لگتا ہے۔

اور ہر وقت اسی تانگ میں رہتا کہ کہیں سے اسکی ضروریات پوری ہو جائیں۔ اس کا الٹرا پرو میکس لیول آپ کو ہر مارکیٹ، بس اڈوں، ٹریفک سگنلز اور ہر جگہ جہاں لوگ ہوں ہاتھ پھیلا کر بھیک مانگتا ہوا نظر آتا ہے۔ ان سب لوگوں کی ہسٹری معلوم کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ان کو یہ بھکاری پن یا تو وراثت میں ملا ہوگا یا کسی حادثے کے بعد کسی نے انکی مدد کی اور انہوں نے اس مدد کو اپنا حق سمجھا اور پھر پروفیشنل بن کر مانگنا شروع کر دیا۔

دل کے راز اور گھریلو حالات اللہ جانتا ہے مگر دو باتیں اس لمبے چوڑے خطاب کے بعد کہوں گا۔ کہ بھیک مانگنے والوں کو ایک روپیہ نہ دیں یہ معذوری کا ڈھونگ رچا کر رزق حلال کمانے والے معذوروں کی بھی معاشرے میں ریپوٹیشن ڈیمج کر رہے ہوتے۔ اکثر پولیس ان کو پکڑ انکی معذوری ٹھیک کرتی نظر آتی ہے۔ دوسری بات کسی کی مشکل گھڑی میں امداد کریں تو کوشش کریں قرض حسنہ دیں اور اس فرد کو کام شہر یا ملک بدلنے کا مشورہ دیں۔

برا وقت میرے آپکے سمیت کسی پر بھی آ سکتا ہے۔ میں خود چند سال قبل لاکھوں روپے قرض میں تھا جو حالیہ چند سالوں میں دن رات کچھ نہ کچھ (جو بھی کرنے کو ملا) کر کے چکایا ہے کہ حالات کا رونا رونے سے کچھ نہیں ہوگا یار۔ جان کو دکھ دینا پڑے گا مشقت اٹھانی ہی پڑے گی تو ہی حالات بدلیں گے۔ کیا پتا کسی کی سوچ بدل ہی جائے اور اسکی آنے والی نسل تو کم از کم غربت اور پسماندگی اور بیچارگی سے نکل سکے۔

Check Also

Class Mein Khana

By Rauf Klasra