Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Khateeb Ahmad
  4. Special Afrad Ke Adhoore Kwab

Special Afrad Ke Adhoore Kwab

سپیشل افراد کے ادھورے خواب

آپ سبھی جانتے ہیں کئی بیماریاں / معذوریاں Progressive ہوتی ہیں۔ یعنی وقت گزرنے کے ساتھ انکی شدت میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ ایک مثال بچپن میں حملہ آور ہونے والی ڈوشین مسکولر ڈسٹرافی جو زندگی کے باقی دنوں کا ہی کاؤنٹ ڈاؤن شروع کروا دیتی ہے اور حالیہ سیارہ فلم میں "وانی" میں دکھائی گئی الزائمرز ڈزیز۔ جو بڑھاپے کی مشکلات بہت بڑھا دیتی ہے۔

ایسے میں فیملی اور ان مریضوں کے ساتھ کام کرنے والے پروفیشنلز کا مقصد ہوتا ہے کہ اس بیماری کی گروتھ کے عمل کو سست کیا جائے اور مریض کے لیے بڑھتی ہوئی مشکلات کو روکا جائے۔ یا اسے لمبی زندگی جینے میں مدد فراہم کی جائے۔

کچھ لوگوں کی فیملی ایسا ہی کرتی ہے۔ جو اوپر لکھا۔ مگر کچھ لوگ خود یہ چاہ رہے ہوتے ہیں کہ انکے زیر کفالت یا زیر دیکھ بھال فرد کی مشکل آسان ہو جائے اور اس مشکل میں گرفتار روح جسم سے آزادی حاصل کرلے۔ وہ نہ تو اتنی استطاعت رکھتے ہیں کہ اسکی مینجمنٹ اور علاج پر خرچ کر سکیں اور نفسیاتی طور پر بھی تھک چکے ہوتے ہیں۔

مگر جسے اس دنیا سے دوسری دنیا میں بھیجنے کی چھپی ہوئی خواہش پال لی جاتی۔ کیا کبھی اسکی آنکھوں میں دیکھا ہے؟ وہ جینا چاہتا ہے یا مرنا چاہتا ہے۔ وہ آخر کیوں جینا چاہتا ہے۔ اس کا کوئی خواب کبھی ہم نے پوچھا ہے؟ بہت سارے کیسز میں کمیونیکیشن ڈس ایبل ہوتی ہے۔ نہ ہم اس بظاہر مفلوج جسم اور گونگی زبان سے کچھ بلوا پاتے ہیں اور ہمارے پاس ایسی کوئی ٹیکنالوجی بھی نہیں ہوتی کہ اسکے دل میں زندہ دماغ میں چلنے والی کسی سوچ اور جذبے کو حقیقت کرنے میں اسکی مدد کر سکیں۔

پرانی بات ہے ساہیوال ایک بھائی بہن سے ملنا ہوا۔ جو بلکل ٹھیک تھے اور ایک نامعلوم بیماری نے انکے جسم پہلے کمزور کیے پھر ٹیڑھے کردیے اور جوڑوں کی حرکت محدود کر دی۔ پھر بات کرنا بھی دشوار کر دیا۔ وہ سن سکتے تھے اور سر ہلا کر اثبات یا نفی میں جواب دے سکتے تھے۔

میں صرف ان کو دیکھنے اور انکی ہوم مینجمنٹ میں مطلوبہ تبدیلیوں کے متعلق گائیڈ کرنے وہاں گیا تھا۔ فیملی افورڈنگ تھی انہوں نے مجھے میری سروسز کا پے کیا تھا۔ کئی سال یہ کام کرتا رہا۔ بلوچستان کے علاوہ تینوں صوبوں کے سفر کیے۔ خیر یہ میرا کام نہیں تھا کہ ان سے انکے خواب پوچھوں۔ میں خود بھی ڈر رہا تھا کہ اگر پوچھ لیے پھر پورے نہ ہو پائے تو مجھے دکھ ہوگا۔ بہرحال میں نے وہاں رات رکنے کا پلان کر لیا۔ مینئولز بنائے اور سوالات کی لسٹ تیار کی۔ جس میں کوئی ہاں ناں میں جواب دے سکتا تھا۔ اس عمر کے لوگ ہمارے معاشرے میں کیا خواب رکھتے ہیں وہ تقریباََ سب کچھ لکھ لیا۔ والدین سے اجازت طلب کی اور سوال پوچھنا شروع کیے۔

وہ بہن بھائی اس بات پر ہی خوش تھے کہ ہمیں ہی ہمیشہ ہسپتالوں میں لیجایا گیا۔ آج کوئی ہمارے پاس آیا ہے اور انکے دل اس بات پر شکر گزار تھے۔ یہ خواب پوچھنے والی سرگرمی انکے لیے ایک ساکن تالاب میں پتھر پھینک کر لہر پیدا کرنے کے مترادف تھی۔

خیر چند گھنٹوں کی گپ شپ نما گفتگو کے بعد دونوں بہن بھائیوں کے جو خواب سامنے آئے وہ یہ تھے۔ وہ لڑکی بس ایک بار دلہن کا جوڑا پہننا چاہتی ہے۔ یعنی دلہن کی طرح تیار ہونا چاہتی تھی۔ شادی نہیں چاہتی تھی کہ اسے اچھے سے معلوم تھا میری شادی کہاں ہوگی اور یہ بھی معلوم تھا کہ مجھے دلہن کون بنایے گا۔ والدین کو دکھ ہوگا کہ یہ ہم کیا ڈرامہ کر رہے ہیں۔ مگر اسکا خواب خود کو بس ایک بار دلہن بنے دیکھنا تھا اور یہ بھی کہ اسکے بچپن کی سہیلیاں اسے مہندی لگائیں۔ اسکا ہئیر اسٹائل بنایا جائے اسے زیور پہنایا جائے اور وہ بلکل ایک دلہن دکھائی دے۔

بھائی سے پوچھا تو وہ کسی کا دوست بننا چاہتا تھا کہ اسکے پاس تو ایک عدد بھی دوست نہیں تھا۔ جو اسے اسکی عمر میں ہونے والی باتیں سنایا کرتا۔ اسے تنگ کرتا، جگتیں لگاتا، لڑکیوں کے نام لے کر چھیڑتا اور بس ایک دن ایک دوست اسے چاہئے تھا جو اسکے ساتھ ایسا کرسکے۔ وہ دوست اسے معذور نہ سمجھے۔ اس پر ترس نہ کھائے کوئی ہمدردی نہ کرے۔ ویسے ٹریٹ کرے جیسے بیس پچیس سال کے کنوارے لڑکے ایک دوسرے کی کتوں والی کرتے ہیں۔

بھائی کا خواب تو میں ہی پورا کر سکتا تھا۔ اس سے میں چند سال ہی بڑا تھا اور وہ اگلے دن اسے اپنے ساتھ باہر لے جاکر پورا کر بھی دیا۔ مگر اس بہن کا خواب جب والدین کو بتایا تو وہ رونے لگ گئے اور انہوں نے کہا کہ ان میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ وہ ایسا کر سکیں۔ میں نے کہا مجھے اجازت دیں تو میری ایک کلاس فیلو یہاں ساہیوال سے ہے۔ اسے ساتھ جائن کرکے ہم ایسا کچھ پلان کر سکتے ہیں کہ یہ لڑکی اپنی زندگی کا سپیشل دن جی لے۔ انہوں کے کہا رشتہ دار گلی محلے والے کیا کہیں گے کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ میں نے کہا ہم میری دوست کے گھر سارا انتظام کر لیں گے۔ مگر وہ نہ مانے اور میں واپس آگیا۔

سوچتا ہوں۔ نجانے کتنے ہی خواب پورے ہونا تو دور سپیشل افراد کی زبان پر ہی نہیں آپاتے۔ یہ ہماری ترجیح ہی نہیں ہے کہ جسے ہم زندہ رکھنا چاہتے ہیں یااسکے مرنے کی دعا کرتے ہیں۔ اس سے بس ایک بار کسی طرح پوچھ لیں کہ وہ کچھ ایسا کیا کرنا چاہتا ہے۔ جو اسکی تلخیوں میں کچھ راحت کے پل شامل کر سکے۔ درد کا مرہم بن سکے، آنسوؤں کے بیچ ایک مسکراہٹ کا باعث بن سکے۔ ہمارا معاشرہ شاید ایسی سوچ تو اپنے لیے بھی کم ہی رکھتا ہے کہ اپنے خوابوں کے متعلق سوچ سکیں، کوئی لمحہ ایسا ڈیزائن کر سکیں جس میں زندگی کو جیا جا سکے۔ تیز گام زندگانی کا سفر تھوڑا روک کر ان خوابوں کے حصول پر کام کریں۔ کجا ایک معذور فرد سے اسکا خواب پوچھنا۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari