Shadi Ke Sath Hamal Ke Akhrajat Bhi Madd e Nazar Rakhen
شادی کے ساتھ حمل کے اخراجات بھی مدنظر رکھیں

شادی کے وقت ایک چیز جو مڈل اور لوئر مڈل کلاس کے بجٹ میں شامل نہیں ہوتی۔ وہ شادی کے فوری بعد ہونے والا حمل ہوتا ہے۔ اکثر و بیشتر کیسز میں شادی میں ناں ناں کرتے کچھ نہ کچھ قرض لینا پڑ جاتا ہے۔ جسے پہلے سے طے شدہ آمدن میں ہی ایڈجسٹ کرکے لوٹانا ہوتا ہے اور پہلے دوسرے ماہ خوش خبری بھی مل جاتی ہے۔
خوشی تو بہت ہوتی ہے۔ مگر ڈاکٹر کے پاس لیجا کر ابتدائی الٹرا ساؤنڈ جو حمل کی لوکیشن کنفرم کرتا ہے۔ کروانے کو فضول خرچی سمجھا جاتا ہے۔ وہ چند ہزار بچانے کی خاطر اگر خدانخواستہ اکٹوپک حمل ہو یعنی بچہ دانی کے باہر حمل یا کسی ٹیوب میں انڈہ دانی میں حمل۔ تو اس کے پھٹنے سے حاملہ ماں کی جان بھی جا سکتی ہے یا بہت شدید نقصان ہو سکتا ہے۔
دوسرا خون کے ٹیسٹ، ایچ بی کا لیول اور دوسرے بیس لائن ٹیسٹ فوری کروانے بہت ضروری ہوتے ہیں۔ اگر الٹرا ساؤنڈ کروا بھی لیا جائے تو ڈاکٹر کے تجویز کردہ ٹیسٹوں سے بچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کہ یہ فضول خرچی ہے۔ اکثر کیسز میں ان معاملات کو ڈائریکٹلی ساس ڈیل کرتی ہے۔ کہ جی وہ تجربہ کار ہے۔ یہاں یہ بات بھول جاتی ہے کہ اس کے ماں بننے کے دور میں دائیوں کا راج تھا۔ کوئی الٹرا ساؤنڈ ٹیسٹ دوائیاں تھیں ہی نہیں۔ تو بائی ڈیفالٹ اس کے لیے یہ سب فضول ہے اور پھر اسکے ذہن میں ہزار کا نوٹ وہی ہزار ہے جو انکے دور میں تھا۔ وہ نوٹ اب کے دس ہزار کے برابر ہے۔ مگر ان کو لگتا ہے اتنے ہزار فضول میں لگ گئے۔
بہرحال۔ شادی کے بجٹ میں لاکھ ڈیڑھ لاکھ روپیہ شامل کریں۔ جو فضول کپڑوں جوتوں اور رسموں میں ضائع کرنا ہے۔ وہ بچا لیں۔ آپ نے فوری بچے پیدا کرنے کی طرف جانا ہے۔ بچہ تو سال بعد ہونا مگر حمل فوری ہوجانا اور آپ کو ہر ماہ اس حاملہ لڑکی کو اچھی خوراک دودھ گوشت اور ممکنہ طور پر فوڈ سپلیمنٹ بھی دینے ہونگے۔ جن پر پیسے لگتے ہیں۔ ایک بار ڈاکٹر کے پاس جائیں تو معمولی خرچ ہے پانچ چھ ہزار لگ جاتا ہے۔ خدا نخواستہ کوئی اور مسئلہ بن جائے جیسا کہ پورے نو ماہ الٹی نہ رکنے کا مسئلہ۔ ہر کھانے سے پہلے بالفرض اونسیٹ 8 گولی لینی پڑ جائے۔ پچاس روپے کی ایک گولی ہے۔ یعنی سو روپیہ روزانہ اور تین چار ہزار ماہانہ تو یہی ریگولر ہوگا۔
کئی خواتین کی صحت بہت خراب ہوجاتی ہے۔ وہ دوران گھریلو کام نہیں کر سکتیں اور کوئی کام کرنے والا نہ ہو تو صاف صفائی اور کپڑے دھونے والی آپی کا ماہانہ خرچ بھی ذہن میں رکھیں۔
اپنے اوپر فرض کر لیں۔ کچھ بھی ہو جائے۔ میاں بیوی باہمی مشورے سے ڈیلیوری کسی ایسے ہسپتال پلان کریں۔ جہاں بچے کو آکسیجن دینے کی فعال سہولت ہو۔ اکثر جگہوں پر ڈمی سلنڈر ہوتا ہے اس میں آکسیجن نہیں ہوتی۔ اگر الٹرا ساؤنڈ یا اناملی اسکین میں بچے کی صحت یا گروتھ ٹھیک نہیں بتائی گئی۔ تو کسی بچوں کی نرسری والے ہسپتال ڈیلیوری کروائیں۔ یا اس ہسپتال کے قریب کی آپشن سلیکٹ کریں۔
کسی گلی محلی کی دائی نرس کی بیٹھک یا دوکان میں لے جاکر ماں اور بچے کی جان کو خطرے میں نہ ڈالیں۔ بروقت آکسیجن نہ ملنے پر، لیبر کا دورانیہ طویل ہونے پر دوران پیدائش ہوئی کوئی بھی Mishandling آپکے بچے کا برین ڈیمج کرکے اسے تاحیات معذور کر سکتی ہے۔ بچے کو پیدائش کے فوراََ بعد رلانا ہوتا ہے۔ جیسے بھی ہو کہ اسکے پھپھڑوں میں دماغ کو وافر آکسیجن ملے۔
نارمل ڈیلیوری کب ابنارمل ہوجائے اور اس وقت آپریشن ہی آخری حل ہو۔ تو اس وقت بچے کو مار کے ماں کو بچا لیا جاتا ہے۔ مگر ہسپتال ہو تو دونوں بچائے جا سکتے ہیں۔
خیر یہ بھی پیسوں والا کام ہے۔ پچاس ہزار سے ایک لاکھ روپیہ۔ پیسے بچانے کی خاطر لڑکے یعنی خاوند اپنی امی اور گھر کی بڑی بوڑھیوں کے کہنے پر گھر ڈیلیوری پر کسی صورت نہ مانے۔ لڑکی کو لڑ کے بھی ہسپتال جانا پڑے جائے۔ نو ماہ تکلیف ماں دیکھتی ہے۔ بچہ جب اس کا مرتا ہے تو وہ درد بھی اسکا ذاتی ہوتا ہے۔ سب دو دن بعد نارمل ہو جاتے ہیں۔ وہ نہیں ہوتی۔ تو اس آخری لمحے تک جانے سے پہلے بات چیت کرکے کوئی اچھا ہسپتال طے کر لیا جائے۔ خاوند خرچ نہیں افورڈ کر سکتا۔ تو بیوی سونے کی کوئی انگوٹھی بیچ دے۔ قرض مل سکتا وہ لے لیا جائے۔ اسکے میکے افورڈنگ ہیں تو وہ اس وقت مالی مدد کر دیں۔ کچھ نہیں ہوجاتا۔ نہ کہ اسکے سسرال پر لعنتیں بھیجتے رہیں کہ وہ کنجوس ہیں غریب ہیں وغیرہ وغیرہ۔

